ان شا اللہ ملک میں اب مارشل لا کبھی نہیں آئے گا۔ فوج کا سیاست میں کوئی کام نہیں اور پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہے۔ پاک فوج کے ترجمان کا یہ بیان یقینی طور پر جمہوری سوچ رکھنے والوں کیلئے باعثِ اطمینان ہے۔ اگر اس نئے ملٹری ڈاکٹرائن پر سختی سے عمل کیا گیا تو امید ہے سیاست دان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے اور کسی فون کے منتظر نہیں رہیں گے۔
غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں، اب وقت آگیا ہے سبق سیکھنے کا! جو بات اب کی گئی ہے، کاش 1958 میں کی جاتی اور اسکندر مرزا، غلام محمد، محمد علی بوگرہ اور ایوب خان جیسے لوگ سیاست کا حصہ نہ ہوتے، کاش! جسٹس منیر جیسے جج نہ ہوتے تو آج نظریہ ضرورت کو ختم کرنے کی بات نہ ہوتی۔
جمہوریت کا مستقبل خاندانوں سے نہیں، سیاستدانوں سے وابستہ ہے جو کسی گیٹ یا غیر جماعتی الیکشن سے نہیں ایک عملی جدوجہد سے آنے چاہئیں۔ یہاں تو صرف منتخب وزیراعظم کو ہی پھانسی نہیں دی جاتی، شہید نہیں کئے جاتے بلکہ طاقتور فوجی حکمران بھی پراسرار طیارہ حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں اور آج تک پتا نہیں چلتا سازش اندرونی تھی یا بیرونی؟ہمارا ماضی ہمیشہ ہمارا تعاقب کرتا رہتا ہے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ امریکا سازش نہیں کرتا، مداخلت نہیں کرتا تو وہ یا تو تاریخ سے ناواقف ہے یا کسی مصلحت کا شکار ہے۔ اب موجودہ صورتحال میں حقیقت کیا ہے، اس کا فیصلہ تو اعلی سطح کا کمیشن ہی کرسکتا ہے اور یہ بات جتنی جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے تو ملک کیلئے بہتر ہے کیونکہ محض امریکا مخالف بیانیے کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اچھا ہوتا اگر تھوڑی خود داری آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک کے معاملے پر بھی دکھائی ہوتی۔
اس وقت ثابت یہ کرنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک منظم امریکی سازش تھی یا منحرفین اور سابقہ اتحادی بھی اس کا حصہ تھے؟ تیسرا یہ کیسی سازش تھی جس کی باضابطہ اطلاع اس کو دی گئی جس کے خلاف یہ سازش ہونے جا رہی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک ایک عمرانی لہر میں مبتلا ہے اور امریکی مخالف بیانیہ زور پکڑ رہا ہے جس کی ہمارے ملک میں ایک تاریخ ہے بائیں بازو سے دائیں بازو تک 1972 میں ایک ایسے ہی مظاہرے میں ہمارے ساتھی عابد علی سعید صاحب نے امریکی قونصلیٹ جو اس وقت پرانی عمارت میں ہوتا تھا، چڑھ کر امریکی جھنڈا اتار لیا تھا، مظاہرہ ویتنام جنگ میں امریکا کے کردار کے خلاف تھا۔
انیس سو اناسی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو بھی امریکی سازش سے تعبیر کیا گیا کیونکہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے 1976 میں براہ راست بھٹو کو نشانہ عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی لہذا پی پی پی اور تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے جلوسوں میں یہ نعرے لگتے تھے اور امریکی پرچم جلتے! یہ سلسلہ 90 کی دہائی میں بند ہوگیا، ایسا کیوں ہوا، اس پر پھر کبھی!
روس افغانستان میں آیا تو افغان جہاد نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ روس کی واپسی کے بعد پاکستان ایک نئی مشکل میں پھنس گیا، یہاں درجنوں گروپس بن گئے اور پھر 9/11 کے بعد امریکا کا جو یار ہے، غدار ہے دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کا پسندیدہ نعرہ بن گیا، کل کے حلیف آج حریف ہوگئے۔ اب یہ بیڑہ خان نے اٹھا یا ہے اور ایک بار پھر ملک میں امریکی مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔
اس وقت خان صاحب عدم اعتماد کی تحریک کے پس پردہ امریکی سازش دیکھ رہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے کراچی کے ایک بڑے جلسے میں مداخلت کی تھیوری کو مسترد کرکے سازش کے بیانیے کو ہی بنیاد بنا کر ایک اعلی سطحی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اس پر راضی تو نظر آتے ہیں اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرنے والے ہیں۔
خان صاحب کے بقول اس سازش کے تانے بانے یہاں اور واشنگٹن سے ملتے ہیں۔ 8مارچ سے 9اپریل تک جو کچھ ہوا سیاسی محاذ پر، اس کو وہ اس متنازع مراسلے کا تسلسل سمجھتے ہیں جس میں ان کے بقول امریکا نے واضح طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔
اب اس دوران پاکستان میں اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس بھی ہوئی اور اعلی امریکی عہدیدار بھی اسلام آباد آئے۔ کیا ہمارے وزیر خارجہ نے ان کے ساتھ بات چیت میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا؟ دوسرا مجھے آج بھی اس سوال کا جواب نہیں مل پا رہا کہ آخر 28مارچ کو جب عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تو اس وقت شاہ محمود قریشی یا کسی اور حکومتی وزیر کی طرف سے عدم اعتماد پر اعتراض کیوں نہیں کیا گیا، بات 3اپریل تک آگئی۔
اس دن ووٹنگ ہونی تھی مگر اچانک فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر پرخطاب کیا، دوسری سائیڈ کو سنے بغیر ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ہی ملتوی کردیا اور بات سپریم کورٹ تک پہنچ گئی جہاں پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ 9اپریل کو صبح 10:30بجے اجلاس بلا کر 3اپریل کی پوزیشن پر ووٹنگ کرائی جائے۔
اب خان صاحب سے معذرت کے ساتھ آپ کو یہ تو برا لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ رات 12بجے کیوں لگی مگر یہ تو بتائیں حضور! رات 12بجے تک قومی اسمبلی کیوں چلتی رہی؟ صبح ووٹنگ ہوجاتی، دوپہر کو ہوجاتی، شام کو ہوجاتی! آپ خود اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں، ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی۔
خان صاحب! آپ کو یاد ہوگا 3نومبر 2008 اس وقت بھی عدالت رات کو لگی تھی اور سات رکنی بنچ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ بھی دیا تھا اور جنرل مشرف کی ایمرجنسی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اگر آپ رات کو عدالتی احکامات کے باوجود فیصلے پر عمل نہیں کریں گے، آئین کی سنگین خلاف ورزی کریں گے تو عدالت رات کو ہی لگے گی۔
اب یہ نکتہ عین ممکن ہے نظرثانی درخواست میں سامنے آئے۔ رہ گئی بات ضمیر فروشی کی تو جب تک ہماری سیاست سے اس کا خاتمہ نہیں ہوتا، نہ سیاست آگے بڑھے گی نہ جمہوریت! مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ 2018 میں ضمیر فروش باضمیر کہلائیں اور 2022 میں ضمیر فروش! اس پر اتفاق رائے ضروری ہے۔
آخر میں صرف ایک درخواست کہ خدا کیلئے غداری کی اسناد دینا بند کریں۔ کسی نے اگر غداری کی ہے تو خصوصی ٹریبونل بنائیں اور جرم ثابت ہو تو سزا دیں۔ کراچی کے جلسے میں ایک نظم پڑھی جارہی تھی ہم دیکھیں گے اس کے خالق فیض احمد فیض راولپنڈی کیس کے اہم ملزم تھے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ غدار وہ نہیں تھے۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ