وزیراعظم جبری لاپتہ افراد کا معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل کریں،ڈی ایچ آر


اسلام آباد (صباح نیوز)ڈیفنس آف ہیومن رائٹس(ڈی ایچ آر )نے شہباز شریف کو وزیراعظم بننے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ جبری لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں گے۔

تنظیم کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف انسانی حقوق کے اس انتہائی اہم معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں،2008 میں انہوں نے 100 سے زائد متاثرہ خاندانوں کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بلایا تھا اور ان دکھی ورثا کی دلخراش داستانیں سن کر وہ آبدیدہ ہو گئے تھے۔میاں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے جبری گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے ورثا کو ان کے پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی کروائی تھی۔ہم امید رکھتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف سالہا سال سے انصاف کی متلاشی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو مایوس نہیں کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کردہ کمیشن کی کارکردگی صفر ہے،یہ کمیشن اپنے ہی جاری کردہ پروڈکشن آڈرز پر بھی عملدرآمد نہیں کرا سکا۔یہ کمیشن جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روک سکا اور نہ ہی جبری گمشدگی میں ملوث افسران کو سزا دے سکا۔سالہا سال سے ورثا کمیشن کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن ان کے پیارے بازیاب نہیں ہوئے۔کمیشن کی جانب سے ورثا کیساتھ ناروا سلوک کے واقعات بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کردہ کمیشن کو فوری تحلیل کیا جائے۔

چیئرپرسن ڈی ایچ آر نے کہا کہ کبھی عدالت کے استفسار پر بتایا جاتا ہے کہ 2011 میں قائم کردہ پہلے کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ گم ہو گئی ،یہ کیا مذاق ہے،کیا کمیشن اپنی رپورٹس کی حفاطت بھی نہیں کر سکتا؟یہ خوش آئند ہے کہ عدالت نے 2011 میں مرتب کردہ کمیشن کی رپورٹ طلب کر لی۔ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ایک مستحسن پیش رفت یہ ہوئی تھی کہ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کیلئے پہلی مرتبہ ایک بل لایا گیا لیکن مجلس قائمہ برائے داخلہ میں مجوزہ بل میں ایک ظالمانہ شق شامل کر دی گئی،اسی متنازعہ شق کیساتھ قومی اسمبلی نے قانون کی منظوری دیدی۔

اس دوران انسانی حقوق کی ملکی و بین الاقوامی تنظیموں نے بھی ظالمانہ شق پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جسکے بعد بل سینیٹ کا مرحلہ نہ طے کر سکا اور کہیں لاپتہ کر دیا گیا۔ڈی ایچ آر کا نئی حکومت سے مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کسی بھی طرح کی حتمی قانون سازی سے قبل تمام سٹیک ہولڈرز کو شریک مشاورت کیا جائے اور ریاستی اداروں کی من مانیوں کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔ ریاستی ادارے فرد کو تحفظ دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ ادارے ظلم و ستم کا مرکز بن چکے ہیں۔

چیئرپرسن ڈی ایچ آرنے کہا کہ ورثاء  سالہا سال سے اپنی پیاروں کی بازیابی اور اس مسئلے کے حل کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور وطن عزیز سے جبری گمشدگی جیسی مکروہ روایات کے خاتمے اور آخری لاپتہ افراد کی بازیابی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔