کراچی(صباح نیوز)جماعت اسلامی کے تحت ”ری بلڈ کراچی” کے سلسلے میں پاکستان انجینئرز فورم کراچی چیپٹر کے تعاون سے (COTHM) College of Tourism and Hotel Management.کے آڈیٹوریم میں کراچی ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ ماضی ،حال اور مستقبل کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت نائب امیرجماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے کی ۔
سیمینار سے سابق صوبائی سکریٹری محکمہ ٹرانسپورٹ ڈاکٹر طاہر سومرو، کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے چیئرمین ارشاد بخاری ، پاکستان انجینئرز فورم کراچی کے صدرالکاظم منصورو دیگر نے بھی خطاب کیا ۔
ڈاکٹر اسامہ رضی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے لیے شہر میں عملاً سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں ،وفاقی و صوبائی حکومتیں ٹرانسپورٹ سمیت شہر کے دیگر مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں ،سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دو رمیں شروع کیے گئے ماس ٹرانزٹ پروگرام کو اگر بروقت مکمل کرلیا جاتا تو آج شہر میں ٹرانسپورٹ کے موجودہ مسائل نہ ہوتے ۔
انہوں نے کہاکہ شہر کراچی مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگیا ہے ،مسائل کے اس دلدل سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، کراچی کے ان مسائل پر جو افرادبات کرسکتے ہیں وہ مسائل کو اجاگر کریں ۔جماعت اسلامی کی سیاست عوام کے بنیادی مسائل کا حل ہے، سیاسی اور عوامی جدوجہد کے ذریعے عوام کی آواز کو بلند کرنا چاہتے ہیں۔ سیاست کا مرکزی نقطہ عوام کی خدمت ہونا چاہیے، موجودہ حکومت اور اس کے نظام میں عوام کے مسائل حل کرنے کی کوئی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے ۔
ڈاکٹر طاہر سومرو نے نے کہا کہ کراچی کے ساڑھے تین کروڑ آبادی والے شہرمیں کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے ، اگر اس منصوبہ پر پہلے ہی عملدرآمد کرلیا جاتا تو آج کراچی کو ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ، کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام میں 6 کوری ڈور بنائے جانے تھے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوجاتے جس سے پورے کراچی کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم ہوجاتی، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام کا منصوبہ پیش کیا جسے بد قسمتی سے بعد میں آنے والی حکومت نے نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے آج کراچی ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہے۔
ارشاد بخاری نے کہاکہ 2010 میں 20 سے 22 ہزار گاڑیاں تھیں جس میں منی بسیں،بسیں اور کوچز بھی شامل تھیں، ہماری بہت سی بسیں کراچی کے حالات خراب کرنے کے لیے جلائی گئیں، ایم کیو ایم والے اکثر زور زبردستی ہماری گاڑیاں لے جایا کرتے تھے، کراچی میں بس ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے اسکول قائم تھا جو کہ ایک ماہ کی تربیت کے بعد بس چلانے کا لائسنس جاری کرتا تھا، کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ صرف پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے حل ہوسکتا ہے، سرمایہ کار اور بڑی کمپنیاں آگے آئیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔
الکاظم منصور نے کہا کہ کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے، یہ وہ لاوارث شہر ہے جس میں ماس ٹرانزٹ پروگرام موجود نہیں ہے ، اب تو افریقہ اور ایتھوپیا میں بھی ماس ٹرانزٹ پروگرام آگیا ہے، بھارت پاکستان کے ساتھ ہی معرض وجود میں آیا ہے وہاں 14 شہروں میں ماس ٹرانزٹ پروگرام موجود ہے۔سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے نوے فیصد ایم پی ایز نے کراچی سے ہی تعلیم حاصل کی اور کراچی ہی میں رہائش پذیر ہیں اس کے باوجود کراچی کو اون نہیں کرتے۔ کراچی تمام زبان بولنے والوں کا شہر ہے ، افسوس کہ نہ وفاقی حکومت اور نہ صوبائی حکومت کراچی کو اون کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کراچی کو مل کر اون کریں۔ ہم سب نے مل کر کراچی کی اونر شپ لینا ہوگی ۔