سیاسی جما عتیں مائنس عمران کے فا رمولے پر تیا ر ہیں،خالد مقبول


اسلام آباد (صباح نیوز)متحدہ قومی موومنٹ پا کستان کے کنوینرڈاکٹر خا لد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان ما ئنس تھوڑے ہو رہے ہیں بلکہ پلس ہورہے ہیں کہ ان کی جما عت کا اگر کو ئی وزیر اعظم ہو گا تو اس کے اوپرپی ٹی آئی کا لیڈرہو گا،یہ والا کام کرنا چاہئے، یہ ہے جمہوریت، یہ ہے طریقہ۔ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے شا یدساری سیا سی جما عتیں مائنس عمران کے فا رمولے پر تیا ر ہیں اور معاملہ پر ایم کیو ایم سے با ت کی جا سکتی ہے ۔

ان خیا لا ت کا اظہا ر خا لد مقبول صدیقی نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم تحریک عدم اعتماد کے معاملہ پراپوزیشن اور حکومت کسی کا ساتھ دینے کا فیصلہ نہیں کرسکے اور برا ابہام ہے اوربہام بڑھتا ہی جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپو زیشن کی جو دو بڑی جما عتیں ہیں ان سے بھی ہما ر ا ما ضی کا ایک بڑا تجربہ ہے جو اتنا خو شگوار نہیں ، ہم بڑی یقین دہا نیوں کے بعد اس حکو مت کے سا تھ شا مل ہو ئے تھے اور یہ تھا کہ کوئی بنیادی تبدیلیا ں لا نے میں کا میابی حا صل ہو گی لیکن حا لا ت ویسے کے ویسے ہی رہے اور تبدیلیا ں تو اسٹیٹس کو کے لو گوں کو ساتھ لے کرچلنے سے آتی بھی نہیں ہیں، ہما رے اس حکومت سے جو مطا لبا ت تھے وہ یہی تھے کہ آپ کو ایسی حکو مت ملنے جا ہی ہے جس میں آپ کے ایک اتحادی کے 200کے قریب لو گ لا پتہ ہیں، تما م دفا تر سیل ہیں یا ان کو منہدم کر دیا گیا، اپو زیشن کی تو کسی جماعت کے نہ کارکن لاپتہ ہیںنہ ان کے دفا تر سیل ہیںنہ منہدم ہیں، یہ ایم کیو ایم پر ایک غیر اعلا نیہ پا بندی ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں مووجود ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے پر چم کے علا وہ تما م پر چم نظر آئیں گے ،تمام نظریات اورسارے پاکستانی کی سیاسی جماعتوں کے بینر لگا ئے جا تے ہیں بنیروں کے اس ہجو م اور جلوس کے اندر اگر ایک چھو ٹا سا بینر ایم کیو ایم کا ہو تا ہے تووہ اتا ر لیا جا تا ہے،حکو مت میں رہ کر اگر یہی مقد ر میں ملنا تھا تو پھر رہنے کا فا ئدہ نہیں تھا میں خو د اسمبلی سے با ہر نکل گیا ، ایم کیو ایم کے معاملا ت کو سمجھنا دوسری سیاسی جما عتو ں کو شا ید تھوڑا سا مشکل ہو تا ہو۔ہمارے لئے تو بہت زیادہ آپشن ابھی بھی موجود نہیں ہیں۔ خا لد مقبول صدیقی نے کہا کہ حکو مت بنیا دی حقوق کے حوالے سے جو مطا لبے تھے اس پر بھی کو ئی وضا حت سے با ت نہیں کر سکی ، اب کس کے خلا ف کو ن عدم اعتما د کرتا ہے ہما را تو اس پو رے نظا م اور ایوان کے پر ہی عدم اعتما د ہے۔

انہوں نے کہاکہ اپو زیشن کے ساتھ ہما رے پہلے کے تجربا ت بھی اتنے خوشگوار نہیں ہیں اور اگر پا کستا ن کے وزرائے اعظم کو اتنا ہی بے بس ہو نا ہے تو ان سے کیا معا ہدے کئے جا ئیں ، اپوزیشن میں بیٹھنا شاید زیادہ بہتر ہو۔ انہوں نے کہاکہ میں توکہتا رہا ہوںکہ ہمیں دفاتر کی ضرورت نہیں ہے اور دفتروں کے بغیر بھی ہم نے زندہ رہنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے لیکن سوال تو ہے نا ،اگر وزیر اعظم ایسی بے بسی کا مظا ہرہ کرے تو پھر اس پو ری جمہو ریت اور جمہوری نظام کا فا ئدہ کیا ہے اور جاگیردارانہ جمہوریت کے بطن سے او رنکلنا بھی کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ پر من وعن عمل کیا جائے، الیکشن ہوں گے ہم جیتیں گے تو ہمارا کراچی کا میئر ہو گا وہ ہمارے لئے وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے ماتحت کام کرنے سے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا دوسرامطالبہ یہ ہے کہ گذشتہ مردم شما ری غلط تھی جو کہ حکو مت نے تسلیم کی ہے اور اس پر میں عمران خا ن کی حکو مت کا شکریہ ادا کر تا ہوں، جلد ازجلد مردم شما ری ہماری ہونی ہے اور جو نئی حکومت آئے اسے جاری رکھے اور اب تک مردم شما ری میں پا کستان میں کہیں بھی اتنا شور نہیں مچتا جتنا کرا چی میں مچتا ہے،تمام اعشاریے بتاتے ہیں کہ کراچی کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کو ئی ایسا میکنزم بنایا جائے کہ کراچی کے لوگ اپنے آپ کو گنوانے کے عمل میں شا مل ہوں، ان کے آدھے سے زیادہ لو گ مردم شما ری کے اندر لا پتہ نہ کئے جائیں ۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ نوکریوں میں جو 40فیصد کوٹہ رکھا گیا اس پر آئندہ عملدآمد یقینی بنایا جائے، ہم نے صرف انصاف اوراپنا حق مانگا ہے، وزارتوں کو ہم اپنا حق نہیں سمجھتے۔انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے پاس جو درمیانی آپشنز ہیں وہ 28مارچ کے بعد میڈیا سے شیئر کر لیں گے۔ ایم کیوایم کے ایم این ایز 26سے کم کرکے سات کردیئے گئے اورہماری جمہوریت جتنی آزاد ہے اتنا ہی سچ بولوں گا جو عبوری حکومت تھی اس نے کردیئے تھے اور اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا۔ پیپلز پا رٹی کی طرف سے ایم کیو ایم کو گو رنر شپ کی پیشکش کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم کو کو شش کرنی چا ہئے کہ نر بن کے رہیں گورنر نہیں اور پیپلز پا رٹی نے کو ئی پیشکش نہیں کی ہے ۔اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو سندھ کی گورنرشپ پیپلز پارٹی نے نہیں بلکہ شہباز شریف نے آفرکرنی ہے۔

ما ئنس عمران کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اتنے ڈھیر سارے لوگ سندھ ہائوس میں موجود تھے اور نوشتہ دیوار لگ رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو شاید اب کوئی روک نہیں پائے گا، عمران خان کے وزیر اعظم رہنے کے امکانات اگر ختم ہو گئے ہیں تو شاید وزیر اعظم کی جانب سے ایسے اقدامات ہو سکتے ہیں جس سے پی ٹی آئی کی حکومت بچ سکتی ہے یا کچھ عرصہ کے لئے بچ سکتی ہے، یہ میرااندازہ ہے، یہ نہ میری رائے ہے اور نہ خواہش ہے، اس میں عمران خان ما ئنس تھوڑ ے ہو رہے ہیں بلکہ پلس ہورہے ہیں کہ ان کی جما عت کا اگر کو ئی وزیر اعظم ہو گا تو اس کے اوپرپی ٹی آئی کا لیڈرہو گا،یہ والا کام کرنا چاہئے، یہ ہے جمہوریت، یہ ہے طریقہ۔ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے شا یدساری سیا سی جما عتیں مائنس عمران کے فا رمولے پر تیا ر ہیں اور معاملہ پر ایم کیو ایم سے با ت کی جا سکتی ہے اور میرا خیا ل ہے کہ اس میں گنجا ئش ہے ، ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور کا رکنوں کے اجلا س سے با ت کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو ساری سیاسی قوتیں تحریک عدم اعتماد کے پیچھے اکٹھی ہیں وہ ہمارے پی پی پی کے ساتھ معاہدے کی ضامن نہ بنیں لیکن گواہ تو بنیں۔ ہم نے اپنے مطالبات رکھے ہیں کہ انہیں پورا کریں ہم نے کوئی معاہدے کی بات نہیں کی۔عمران خان ہماری دعوت پرکراچی آئے تھے اورانہوں نے ہمارے ساتھ تحریک عدم اعتماد پر ساتھ دینے کی کوئی بات نہیں کی۔