چین سے خریدے گئے J10C ائیر کرافٹ کو پاک فضائیہ کے بیڑے میں باقاعدہ طور پر شامل کر لیا گیا ہے۔ J10C طیارے کو انڈیا کے فرانس سے خریدے جانے والے رافیل طیارے کے مقابلے میں خریدا گیا ہے۔ جس کے باعث فضائی ماہرین اور مختلف حلقوں میں یہ دونوں طیارے زیر بحث ہیں۔ اور ان کا موازنہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے آج کے کالم میں J10C طیارے اور رافیل کی خصوصیات کو بطور موازنہ پیش کیا جارہا ہے۔
چینی ساختہ J10C میڈیم ویٹ ملٹی رول سنگل انجن ائیر کرافٹ ہے جسے چین کی چینگڈو ائیر کرافٹ کارپوریشن اور 611 انسٹیٹیوٹ نے مل کر بنایا ہے۔ جو چائینہ لبریشن آرمی کے زیر استعمال ایک قابل اعتماد ائیر کرافٹ مانا جاتا ہے۔ J10C کو چینی فضائیہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔
چین نے J10 ائیر کرافٹ پراجیکٹ 1984 میں شروع کیا۔پہلا پروٹوٹائپ 1997 میں تیار ہوا۔ اس کو گزشتہ اٹھارہ برسوں میں بہت سی تبدیلیوں سے گزارا گیا۔ تبدیلیوں کے اس سفر میں میجر ری ڈیزائننگ کی گئی جس کے بعد یہ فضائی برتری کا حامل فائٹر جیٹ اور آخر کار سیمی سٹلتھ ملٹی رول فائٹر جیٹ کی صورت اختیار کر گیا۔ ان میجر تبدیلیوں کا مقصد اس طیارے کو سابقہ سوویت Era کے طیاروں سے ہٹ کر امریکی F-18، F-15، اور دیگر جدید طیاروں کے مقابلے کے لئے تیار کرنا تھا۔ ایڈوانسمنٹ کے اس عمل میں نئے ایڈوانس ایویونک سسٹمز ، جدید ریڈار اور ہتھیاروں کے بہترین پیکج کا شامل ہونا تھا۔ اور بلآخر اگست 2017 میں پیپلز لبریشن آرمی کی پریڈ کے دوران J10C ورژن منظر عام پر آیا۔
رافیل اور J10C طیارے کا موازنہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ J10C طیارہ رافیل طیارے پر برتری رکھتا ہے۔
جے ٹین سی طیارے کا انجن WS10B ، چینی ساختہ ہے جو کہ میکسیمم 140KN تھرسٹ پیدا کرتا ہے۔ اور تھرسٹ ٹو ویٹ ریشو میں طیارے کے سسٹمز کو آپٹیمم لیول پر استعمال کے قابل بناتا ہے۔ جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف طیارے کے الیکٹرانک وارفئیر سسٹمز کی صلاحیت پوری طرح قابل استعمال ہوتی ہے۔ وہیں طیارہ اپنے ہتھیاروں کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ طاقتور انجن کی بدولت یہ mach 2.2 کی رفتار سے اڑ سکتا ہے۔
جبکہ رافیل دو انجنز (Snecma M88) پر مشتمل ہے۔ ہر ایک انجن 75KN تھرسٹ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یوں رافیل کے دونوں انجن زیادہ سے زیادہ 150KN تھرسٹ پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر تھرسٹ ٹو ویٹ ریشو میں رافیل J10C سے بہت پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دو انجن رکھنے کے باوجود mach 1.8 کی سپیڈ سے پرواز کر سکتا ہے۔ اور طیارہ اپنے ویپنز اور الیکٹرانک وارفئیر سسٹمز کو آپٹیمم لیول پر استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
بات کی جائے دونوں طیاروں کے ریڈار کی تو J10C طیارے کا ریڈار KLJX-AESA ہے۔ جو 1200 ٹرانسمٹ اور ریسیو ماڈیولز پر مشتمل ہے۔ جو کہ رافیل کے مقابلے میں (RBE2-AESA ریڈار TRM-838) زیادہ کارکردگی کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ائیر ٹو ائیر رینج میں رافیل پر برتری کا حامل ہے۔ J10C کا ریڈار TRM-1200 ہونے کی وجہ سے رافیل کے ریڈار TRM-838 کو جام کرنے میں برتری رکھتا ہے۔ اپنے طاقتور انجن کے بدولت J10C کا ریڈار 250Km دور سے اپنے ہدف کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور بعض ماہرین کے مطابق اس کی رینج اس سے بھی ذیادہ ہے۔ جبکہ رافیل کا ریڈار 200Km دور سے اپنے ہدف کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریڈار کے حوالے سے بھی J10C طیارے کا پلڑا رافیل پر بھاری ہے۔
الیکٹرانک وارفئیر سسٹمز کے حوالے سے دیکھا جائے تو J10C طیارے میں چین کے ففتھ جنریشن J20 طیارے میں استعمال ہونے والے جدید ترین الیکٹرانک وارفئیر سسٹمز استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ رافیل میں سپیکٹرا الیکٹرانک وارفئیر سسٹم ہے جو کہ قدرے پرانا سسٹم ہے۔ رافیل طیارے میں یہ الیکٹرانک وارفئیر سسٹم فکسڈ ہے۔ جبکہ J10C طیارے میں ضرورت کے وقت الیکٹرانک وارفئیر سسٹمز کو تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ رافیل کا سپیکٹرا الیکٹرانک وارفئیر سسٹم بھی قدرے بہتر خصوصیات کا حامل ہو مگر رافیل طیارہ اسے آپٹیمم لیول پر استعمال کر سکتا ہے یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ کیونکہ J10C کا طاقتور انجن اور تھرسٹ ٹو ویٹ ریشو اسے اس قابل بناتی ہے کہ طیارہ اپنے ریڈار ، ویپنز اور الیکٹرانک وارفئیر سسٹمز کو پوری صلاحیت اور میکسیمم رینج میں استعمال کر سکے۔ جبکہ رافیل کو تھرسٹ ٹو ویٹ ریشو میں یہ برتری حاصل نہیں ہے۔ اس لئے رافیل کا یہ سسٹم اپنی سو فیصد کارکردگی نہیں دکھا سکتا۔
ویپن پیکج کے حوالے سے J10C طیارہ PL15 – BVR میزائل سے لیس ہے۔ جبکہ میڈیم رینج میں PL12 اور شارٹ رینج میں PL10 میزائلز سے لیس ہے۔ PL15 میزائل کو امریکہ اپنی فضائیہ کے لئے سیریس تھریٹ قرار دے چکا ہے۔ اور اس کی ایفیکٹو رینج 200Km جبکہ زیادہ سے زیادہ رینج 250Km ہے۔ اور یہ رافیل کے METEOR – BVR میزائل پر رینج میں واضح برتری رکھتا ہے۔ جس کی زیادہ سے زیادہ رینج 170Km جبکہ ایفیکٹو رینج 150Km بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح شارٹ رینج میں J10C طیارے کا PL10 میزائل ہائی آف بور صلاحیت کا حامل ہے۔ جو 90 ڈگری آف بور سائیڈ پر نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی پائلٹ کو مخالف طیارے کی لائن میں آ کر میزائل فائر کرنے ضرورت نہیں ہے بلکہ 90 ڈگری سے بھی مخالف طیارے کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ جبکہ رافیل کے شارٹ رینج MAGIC 2 میزائل میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔
حاصل کلام یہ ہے پاکستان ائیر فورس نے حقیقتا J10C طیارے کی صورت میں رافیل کا توڑ خریدا ہے۔ اگر رافیل کو کسی حوالے سے J10C طیارے پر برتری حاصل ہے بھی تو ائیر کمبیٹ میں نہیں۔ بلکہ ائیر کمبیٹ میں رافیل J10C طیارے سے کہیں پیچھے ہے۔ مختصرا یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رافیل کو کمبیٹ رینج ، میکسیمم ٹیک آف ویٹ، ہارڈ پوائنٹس (نمبر آف ویپنز) میں تو J10C پر برتری حاصل ہے مگر یہ عوامل اسے ائیر کمبیٹ میں کوئی سپورٹ نہیں دے سکتے۔ بلکہ ائیر کمبیٹ کے لئے ضروری عوامل یعنی سپیڈ، ریڈار ، ویپنز ایفیشنسی اور مینوور ایبیلٹی ہیں۔ اور ان سب میں J10C کو رافیل پر واضح اور فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ائیر فورس کے اس سمارٹ فیصلے نے انڈیا کی چیخیں نکال دی ہیں۔ اور اس وقت انڈیا کو رافیل طیارے پر خرچ کئے گئے اربوں ڈالر ضائع ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی اہمیت اپنی جگہ مگر ہمارے تربیت یافتہ پائلٹس کو ہمیشہ سے ہی کارکردگی کے لحاظ سے دشمن پر برتری حاصل رہی ہے۔ ان کے جذبہ ایمانی، اعلی مہارت، قابلیت اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں نے دشمن کو ہر محاذ پر منہ کی کھانے پہ مجبور کیا یے۔
پاکستانی افواج پختہ ایمان اور اعتقاد کی وجہ سے دشمن پر برتری رکھتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹیکنالوجی سے جنگیں لڑی تو جا سکتی ہیں مگر جیت کے لئے ایمان اور پختہ اعتقاد بہت ضروری ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ دنیاوی زندگی عارضی زندگی ہے اور اسے فنا ہو جانا ہے جبکہ ہماری اصل زندگی موت کے بعد ہو گی جو ابدی زندگی ہے۔ اور اسے فنا حاصل نہیں ہے۔ جس قوم کو بچپن سے ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی رضا کی خاطر دشمن کے مقابلے میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والوں کے لئے اللہ رب العزت نے بے شمار انعامات و اعزازات رکھے ہیں اس قوم کو جنگ کے میدان میں شکست دینا نا ممکن ہے۔ دوسری طرف ہندوستانی ائیر فورس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انہیں امریکہ کے جدید ترین F22 طیارے بھی دیے جائیں تو ائیر کمبیٹ میں انہوں نے پلٹ کر بھاگنا ہی ہے۔ اس کی واضح مثال میراج 2000 کے ساتھ بالاکوٹ پر حملہ ہے۔ جس میں بھارتی پائلٹ اپنے ہدف پر بم گرانے کے بجائے ہدف سے دور محض جنگل میں بم گرا کر بھاگ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ انڈیا نے آج تک جو بھی طیارہ استعمال کیا ہے اس کی مارکیٹ ویلیو بہت کم ہوئی ہے۔
باقی سب باتیں اپنی جگہ مگر ہماری “چائے” کا ذائقہ بھی بہت لاجواب ہے۔ جس کا اعتراف 27 فروری 2019 کو پاکستان پر حملے کی غرض سے آنے والے اور پاک فضائیہ کی طرف سے طیارہ تباہ کئے جانے پر گرفتار ہونے والے بھارتی پائلٹ ابی نندن نے بھی کیا ہے۔
Load/Hide Comments