تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے اور عمران خان کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پاکستانی سیاست میں کیا طوفان برپا ہو گا اور کون اس طوفان کی لہروں پر ابھر کر سامنے آئے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اب بالکل مشکل نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان میں چلنے والی گذشتہ تحریکیں اور عوام کی نفسیات یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ عدم اعتماد کے بعد کی عوامی صورتِ حال کیسی ہو گی۔ اس ملک کی سب سے بڑی اور کامیاب تحریک وہ تھی جو 1977 میں الیکشنوں کی دھاندلی کے الزامات کے نتیجے میں برپا ہوئی۔ سات مارچ 1977 کو قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے، جس کے نتائج کو متحدہ اپوزیشن جو پی این اے کی صورت ایک پارٹی اور ایک انتخابی نشان ہل کے تحت الیکشن لڑ رہی تھی، اس نے ماننے سے انکار کر دیا اور تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس کے اگلے دن سے ایک احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا جس کی شدت اس قدر تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے اہم ترین پارٹی اراکین بھی چھوڑ کر اپوزیشن کی صفوں میں آ کھڑے ہوئے جن میں اعتزاز احسن اور حنیف رامے جیسے لوگ بھی تھے۔ بھٹو نے تین شہروں میں مارشل لا لگایا، لیکن عوام سینے تان کر فوجی بندوقوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دباؤ اس قدر شدید تھا کہ فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ حالات بگڑے اور سات جولائی کو مارشل لا لگا کر بھٹو کو نظر بند کر دیا گیا۔ ایک سناٹا چھا گیا۔ بھٹو مخالف جذبات چند ہفتوں میں ٹھنڈے ہو گئے۔ اب بھٹو مظلوم تھا اور اس کی پارٹی کے بکھرے ہوئے پتنگے اس کی شمع کے گرد دوبارہ جمع ہو رہے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی نے بھٹو کو ضمانت پر رہا کیا اس نے فورا بعد ناصر باغ لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ ایسے لگتا تھا ہجوم واپس بھٹو کی سمت لوٹ آیا ہے۔ ضیا الحق نے بھٹو کو ملتان کے جلسے سے پہلے گرفتار کرنے کیلئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر پنجاب جنرل اقبال کو کہا، لیکن عوامی غیظ و غضب کی شدت کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ بھٹو کراچی پہنچا اور 16 ستمبر 1977 کو آرمی کمانڈوز نے المرتضی کی دیواریں پھلانگ کر بھٹو کو گرفتار کر لیا۔ اس سے ایک دن پہلے 15 دسمبر کو ایمرجنسی اٹھا لی گئی تھی اور الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لا کے نفاذ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جسٹس یعقوب چیف جسٹس نے 20 ستمبر کو اس کے لئے تاریخ مقرر کر دی۔ وہ بھٹو جس کے خلاف تین ماہ پہلے پورے ملک میں نفرت کا ایک سیلاب امڈا ہوا تھا دوبارہ اس قدر خطرناک ہو گیا کہ ضیا الحق نے پہلے جسٹس یعقوب کی جگہ جسٹس انوارالحق کو چیف جسٹس لگایا اور پھر الیکشنوں کو غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔ ایوب خان کے خلاف بھٹو کی تحریک، بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک، ضیا الحق کے خلاف بھٹو کا دوبارہ ابھرنا، ایم آر ڈی کی تحریک، غرض ان تمام تحاریک کا جائزہ لیں تو ان سب میں عوامی مسائل، مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کا کہیں دور دور تک تذکرہ نہیں۔ ایوب خان کے دور میں مہنگائی کے خلاف حبیب جالب ہر چیز پہ چھایا سناٹا۔ بیس روپے من ہے آٹا جیسی نظمیں پڑھتا رہا۔ سیاسی افق پر رہنماؤں کی ایک کہکشاں تھی، لیکن اس کے باوجود بھٹو کا نعرہ مستانہ یہ تھا کہ ہم بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔ اسی طرح تمام سیکولر، لبرل پارٹیوں کی موجودگی میں بھٹو کے خلاف نعرہ نظامِ مصطفی کا لگایا گیا اور وہی کامیابی سے بھی ہمکنار ہوا۔ تحریکِ ختم نبوت ہو یا ایم آر ڈی تحریک یہاں تک کہ تحریکِ لبیک، آج تک پاکستان میں کوئی ایک تحریک بھی ایسی نہیں ابھری جو عوامی مسائل کی بنیاد پر برپا کی گئی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی دیہی اکثریت ایک ایسے ماحول میں رہتی ہے جہاں تمام ضروریات آپس کے بارٹر سے پوری ہوتی ہیں، صرف نمک یا مٹی کا تیل لینے دکان پر جانا پڑتا ہے۔ شہروں کی مہنگائی پر کاروباری شخص، مزدور یا چھوٹا کاروبار کرنے والا مہنگائی کا علاج اپنے دام یا اجرت بڑھا کر کر لیتا ہے۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جاتے ہیں جو تنخواہ دار ہوں اور جن کی آمدن نہیں بڑھ سکتی۔ یہ لوگ روزمرہ کی تلاشِ رزق کی ذمہ داریوں میں اس قدر الجھے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے کسی تحریک کا حصہ بننا ممکن نہیں ہوتا۔ تحریک دراصل عوام کے اندر سے ایک جذباتی ہجوم کا مرکز نیوکلس بناتی ہے، جو ایک جذباتی کیفیت میں نکلتے ہیں اور پھر عوام کی خاموش اکثریت ان کے ساتھ چل نکلتی ہے۔ گذشتہ ستر سالہ تاریخ کی تحاریک کا جائزہ لیں تو اس وقت عمران خان کے پاس شاید سب سے زیادہ جذباتی نعرے موجود ہیں جن کا وہ آسانی سے استعمال کر سکتا ہے۔ مثلا وہ افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بنانا چاہتا تھا، اسے ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ وہ امریکہ کو اڈے نہیں دینا چاہتا تھا، اس پر دبائو ڈالا گیا، وہ یورپی یونین کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہتا تھا اور یہ لوگ اسے غلامی کا درس دیتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ لوگ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں کرپشن کے الزامات کو ابھی تک نہیں بھولے اور ان دونوں کا اس کے خلاف اکٹھا ہونا اور عدم اعتماد کر کے اسے نکالنا ایک ایسا واقعہ ہو گا جسے وہ انتہائی شاندار طریقے سے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکے گا۔ مرکز میں کوئی بھی وزیراعظم آئے وہ تمام اپوزیشن کا مشترکہ ہو گا اور صرف ڈیڑھ سال کے لئے ہو گا۔ صوبوں کی حکومتیں قائم رہیں گی۔ اس لئے عمران خان کے لئے اپوزیشن کرنا بھی آسان ہو گا اور تمام پارٹیوں کو الزامات کی زد میں لانا بھی مشکل نہ ہو گا۔ عدم اعتماد کامیاب ہونے کا یقین ہوتے ہی اس کے ہاتھ میں ایک اہم کارڈ ایسا ہے جسے وہ اسمبلی میں ووٹنگ سے پہلے استعمال کر سکتا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی توڑ کر دوبارہ انتخابات کے لئے میدان میں اتر جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ انتخاب صرف ڈیڑھ سال کیلئے ہوں گے، لیکن پوری سیاسی بساط الٹنے کیلئے کافی ہوں گے۔ ان انتخابات میں کیا نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں اتحادی بن کر الیکشن لڑیں گے اور آئندہ پانچ سال والے الیکشن بھی داؤ پر لگا دیں گے۔ علیم خان گروپ اور جہانگیر ترین گروپ دوبارہ الیکشن کس پارٹی سے ٹکٹ لے کر میدان میں اترے گا۔ قاف لیگ جو گذشتہ الیکشنوں میں پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد کر کے آٹھ سیٹیں لے کر اسمبلی میں آئی تھی، وہ اب کس سے اتحاد کریگی۔ کیا پیپلز پارٹی اور نون لیگ اسے ویسا ہی موقع فراہم کریں گے۔ عمران خان اس تحریک عدم اعتماد میں ہارتا ہے یا جیتتا ہے، وہ سیاسی طور پر مستحکم ہی ہو گا۔ جیتنے کے بعد آئینی طور پر اس کے خلاف چھ ماہ کے لئے عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکتی۔ یہ چھ ماہ عمران خان کے لئے سب کچھ کر گزرنے کے دن بھی ہو سکتے ہیں جبکہ پوری اسمبلی بھی اس کے مخالف ہو جائے تو اسے وزارتِ عظمی سے برطرف نہیں کر سکتی۔ یہ وہ تمام صورتِ حال ہے جس کو سمجھنا، اس کا ادراک رکھنا ہر سیاسی رہنما کے لئے ضروری ہے اور میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آصف زرداری جیسے معاملہ فہم، مولانا فضل الرحمن جیسا سیاسی کھلاڑی، نواز شریف جیسا تجربہ کار اور چوہدری برادران جیسے سیاسی پروہت اور دیگر کو اس صورتِ حال کا اندازہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ پوری کی پوری اپوزیشن ایک ایسے میدان میں کیوں اتری ہے جس میں جیتنے اور ہارنے، دونوں صورت میں ان کا اپنا ہی مفاد کمزور ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز