دنیا میں امن کیلئے پاکستان کہاں ہے؟۔۔۔تحریر کشور ناہید


رسوائی کیلئے عمر کی تو قید نہیں۔ البتہ سیاسی رسوائی ایسا داغ ہے جو صرف ملک ہی نہیں عالمی سطح پرپھیل جاتا ہے۔ چاہے آپ فیک نیوز کے ذریعہ پھیلائیں، رسوائی جب مقدر ہو جائے تو بلھے کو تو سمجھانے بہنیں اور بھابیاں آئی تھیں۔ مگر بنی گالہ والوں کو تو ملکوں ملکوں کے سفیر کہہ رہے ہیں کہ سوائے آپکے، باقی ساری دنیا پیوٹن کو یوکرین پہ بلا جواز حملہ کرنے پہ مطعون کر رہی ہے۔

پاکستان میں تمام امن پسند انجمنوں جیسے خواتین محاذ عمل، انسانی حقوق کمیشن اور تمام میڈیا اور پریس نے پیکا کے خلاف اور روسی بے جا حملے کے خلاف بیانات دیے ہیں۔ ادھر حکومتی پارٹی، سندھ میں، عالمی احتجاج سے لا پروا اور دوسری طرف ان کے برخلاف لانگ مارچ، یوکرین میں لوگوں نے کی بورڈ اور قلم چھوڑ کر ملک کو بچانے کے لیے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔ تو چینی سائنس دانوں نے روس کے حملے کی مذمت کی ہے۔ اب امریکہ کو شہ مل رہی ہے کہ جس ملک کو چاہے مطعون کرے اور وہاں چاہے توڈرون بھیج دے کہ پاکستان پر 400حملے گزشتہ برسوں میں امریکہ نے، کوئی پوچھ کرکیےہیں۔ یو کرین میںتو عام پبلک کے علاوہ سابق صدر بھی اپنی رائفل لے کرنکل آئے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں بھی روسی فوجوں کو واپس جانے کا کہہ رہی ہیں۔ پاکستان میں عالمی صورت حال سے لا تعلق بظاہر بجلی اور پٹرول کی قیمتیں کم کی جا رہی ہیں۔ بقول ماہرین معیشت، اس طرح کے اعلانات اور پانچ لاکھ روپے، غریبوں کو بلاکسی گارنٹی دینے کی بات پر تو تمام بینکوں کے منیجر کہہ رہے ہیں ہم تو اپنی ذمہ داری پر بلا سود اور گارنٹی، ایسے قرضے دینے کے اہل نہیں تو پھر کیا ہوگا سفینہ ڈوب رہا ہے، تماشہ ہو رہا ہے۔

ابھی لا پتہ افراد کا موضوع پھر تازہ ہو گیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹ نے حفیظ بلوچ کے لا پتہ ہونے پر جلوس نکالا اور حسب عادت، پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ ادھر کراچی میں اطہر متین کے قاتل کو گولی مار کر خون ناحق کا حساب بے باق کر دیا۔ اب تو لوگ پوچھ رہے ہیں کہ عمران حکومت، امریکہ مخالف ہے، چین کے لیے بوجھ ہے کہ کیا چکر ہے۔ یہ ترین صاحب جو بجٹ پیش کرتے ہیں۔ وہ خود کہاں چھپے ہیں۔یہ کیا تضادات ہیں۔ اب ہم نے اسٹیل مل کی 2 ایکڑ زمین، کس کو بیچی ہے۔ نہیں معلوم۔ کیا کوئی ملک اس طرح اپنے اثاثے کسی اور کو دیتا ہے؟

آئیے مارچ کے حوالے سے چند اہم باتیں کر لیں۔ مارچ بلیک ہسٹری کا مہینہ ہے۔اس کی خوشیاں تاریخی اور جدید دورکی بھی ہیں۔ اس نے کالے سفید کے غرور کو توڑا۔ گزشتہ چالیس برسوں میں ہارلیم میں رہنے والے شائستہ فلیٹوں اور اسمبلی کی سیٹوں پر خود اعتمادی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اس وقت امریکہ میں سب سے اچھا لکھنے والوں میں افریقی نسل کے لوگ ہیں۔ جنہوں نے غلامی کی ساری زنجیر توڑ کر، مساوی تنخواہ اور کام کی دہلیز پار کر لی ہے۔ اس وقت جو بائیڈن کی حکومت میں انڈیا، پاکستانی اور رنگ کی تمیز کے بغیر ہر قوم کے لوگ شامل ہیں۔ یاد کریں جارج فلائیڈ کو کیسے گورے نے گردن پہ گھٹنا رکھ کر دم گھونٹ کے مارا تھا۔ پورا امریکہ کیا ساری دنیا ہل گئی تھی۔ دنیا کو اس وقت روس نے ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ پہلے افغان اور فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ تیس سال سے، پاکستان جیسی غریب قوم کو دم نہیں لینے دے رہا تھا۔ پھر شامی پناہ گزینوں اور عراقیوں کا مسئلہ آیا، اب یوکرین کے پناہ گزینوں کا مسئلہ اور وہ بھی خون جما دینے والی سردی میں، ساری دنیا کو متحرک کر رہا ہے۔ پولینڈ اور دیگر قریبی ہمسائے، کیسے لاکھوں لوگوں کو پناہ دے سکتے ہیں۔ روسی فوجیوں کی مائیں بھی اپنی اولادوں کے لیے پریشان ہیں اور یوکرین کے بچوں کی حالت دیکھی نہیں جا سکتی۔ جنگ کے خلاف ساری دنیا کے لوگ سڑکوں پر ہیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ روس کی آبادی کو بھی دنیا سے رابطے اور تعلقات کی ضرورت ہو گی۔ کیا آپ سب روس کو تنہا کر دینگے۔ پہلے بھی ایسا تجربہ آپ کیوبا کے ساتھ کر چکے ہیں۔

کیا اقوام متحدہ کا ادارہ، یوکرین میں روسی فوجوں کی نسل کشی کو بند نہیں کروا سکتا ہے۔ کیا اقوام متحدہ یہ نہیں بتا سکتی کہ یوکرین دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت کے بعد، اس حالت پہ کیسے پہنچا۔ یوکرینی ڈرائیور، روسی فوجیوں سے کیوں کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کو واپس چھوڑ آئوں اس کا مطلب ہے کہ روسی لوگ بھی جنگ نہیں چاہتے۔ مجھے بار بار خیال آتا ہے کہ وہ 37جنہوں نے قرار داد کے حق میں ووٹ نہیں دیا، کیا وہ اس جنگ کو صحیح سمجھتے ہیں کہ ان میں انڈیا اور پاکستان شامل ہیں۔ اور اب تواور بھی مخدوش حالت ہے کہ فی الوقت روسی فوجیوں نے، یوکرین کے سب سے بڑے ایٹمی پلانٹ کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ کیا انہیں روس کے بچوں اورلیبر روم میں موجود خواتین کابھی لحاظ نہیں ہے۔ وہ بچے جو اس بربریت اور دہشت میں بم کے دھماکے اور گھروں کو اجڑتے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے لیے مستقبل میں کیا لکھا ہے۔ میں تو ٹی۔ وی پہ روسی فوجی جوانوں کی ماؤں کی آنسوئوں سے بھری آنکھیں دیکھ رہی ہوں۔ کچھ نوجوان آگے بڑھ کر ان کو تسلی دے رہے ہیں۔ دل میں سب کے سوال ہے کہ آخر لڑائی کیوں، کس لیے جارحیت۔ کیوں امن پسند لوگ پاکستان اور انڈیا کے بول نہیں رہے۔ پر ہیں کہاں جو آواز اٹھاتے تھے۔ جیسے عاصمہ، فہمیدہ، رحمان صاحب، ضمیر نیازی، منہاج برنا اور نثار عثمانی، سب چلے گئے۔ پاکستان میں صرف موقع پرست رہ گئے ہیں۔ انڈیا میں تو نوجوان نسل کو صرف دہشت سکھائی گئی ہے۔ وہ ہر شہر میں انسانوں کو بوٹیوں میں بدل رہے ہیں۔ اب روس یوکرینیوں کے بچوں کو پناہ گزینوں میں بدل رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کا ہولو کاسٹ اب تک نہیں بھولا۔ ساری دنیا کے لوگو! متحد ہو جاؤ۔ امن کے لیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ