اسلامی نظامِ تعلیم کی تشکیل!۔۔۔۔تحریر پروفیسر محمد ابراہیم خان


کسی بھی معاشرے یا سوسائٹی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے اگر کسی کے پاس کوئی نسخہ کیمیا ہے، تو وہ نظامِ تعلیم (علم، تعلیم وتربیت اور تزکیہ) ہے۔ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں (انبیاء اور رسولوں) کو چُنا، اُنہوں نے تعلیم الکتاب اور تزکیے کا کام بہت ہی عمدگی سے نبھایا اور زنگ آلود دلوں کو نورِ ایمان سے منور کیا۔ یوں ہر نبی اور رسول نے اپنے دور میں علم، تعلیم، تربیت اور تزکیے کی بنیاد پر ’انقلاب‘ برپا کیا۔ اس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت نمبر 151 اس طرح فرمایا ہے: ’’ جس طرح (تمہیں اس چیز سے فلاح نصیب ہوئی ہے کہ) میں نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تمہیں میری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے، جو تم نہ جانتے تھے‘‘۔
نبی اکرمؐ نے مدینے کی اسلامی ریاست کی تعمیر وتشکیل کا آغاز کیا، تو سب سے پہلے آپؐ نے ایک آفاقی و انقلابی نظامِ تعلیم متعارف فرمایا۔ اُس کے لیے مسجد نبوی کو درس گاہ کا درجہ دیا۔ آپؐ اس کے سربراہ اور معلم تھے اور صحابہ کرام ؓ اس عظیم درس گاہ کے شاگرد تھے، جنہوں نے عرب کے گئے گزرے معاشرے کو دُنیا کا مہذب ترین معاشرہ بنانے اور اقوامِ عالم کے لیے اس اسلامی ریاست کو نمونہ بنانے میں آپؐ کی معاونت کی۔ آپؐ نے مدینے کی اسلامی ریاست میں نظامِ تعلیم کو مرکزی حیثیت دی تھی، اسی لیے آپؐ اپنا تعارف معلم کے طور پر فرماتے ہیں کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
برصغیر وپاک وہند کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ برطانوی سامراج کا پہلا ہدف مسلمانوں کا نظام تعلیم تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو نظام ِ تعلیم مسلمانوں کے پاس صدیوں سے چلا آرہا ہے، وہ کبھی اُن کو ہمارا غلام بننے نہیں دے گا۔ اس لیے برطانوی سامراج نے ہندوستان میں لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم زبردستی مسلط کرایا، اُس کے بعد ذہنی غلامی کا دور شروع ہوا۔ لارڈ میکالے نے فروری 1835ء میں اپنی رپوٹ میں یہ سفارش کی تھی: ’’تعلیم کے معاملے میں ہندو اور مسلم کا امتیاز ختم کیا جائے اور برطانوی حکومت کا مطمح نظر ہندوستان کے لوگوں میں یورپی علم کی ترویج اور فروغ ہونا چاہیے‘‘۔ قیام پاکستان کے بعد اسلامیانِ پاکستان نے متعدد بار لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم کی جگہ اسلامی نظام تعلیم کے لیے کوششیں کیں، لیکن حکومتوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
لارڈ میکالے کی طرح ہمارے ملک کے چند نام نہاد دانشور اور ماہرینِ تعلیم بھی یہ تجویز دیتے ہیں کہ نصابِ تعلیم میں اسلامی مواد صرف اسلامیات تک محدود ہونا چاہیے۔ ایک اسلامی ملک جس کی 98فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہو، وہاں اس قسم کی تجاویز صرف اور صرف اسلام کے ساتھ بغض اور دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ناگزیز ہے کہ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور ایک ایسا اسلامی نظامِ تعلیم تشکیل دیا جائے، جو اسلام کے بنیادی اُصولوں کے عین مطابق ہو اور جدید دور کے تقاضوں کو بھی پورا کرے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 31 کا بھی یہی تقاضا ہے۔
آئیے! تعلیمی اداروں کے سربراہان، اساتذہ، والدین اور طلبہ و طالبات مل کر یہ عہد کریں کہ ہم ’’انقلاب بذریعہ تعلیم‘‘ کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم کا قلع قمع کریں گے۔ پاکستان کی بقا اسلامی نظام میں ہے اور جس طرح زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے، اسی طرح اسلام نظامِ تعلیم میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اس وقت ملک عزیز بیماریوں، وباؤں، آفتوں، پریشانیوں، لوٹ مار، مہنگائی، کرپشن، نا انصافی اور بدامنی میں پھنسا ہوا ہے، اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ملکی مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے، اس کے لیے جدوجہد وقت کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام آئے گا تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم سے چھٹکارا ملے گا، کرپشن فری، امن وامان کا گہوارہ ’اسلامی اور خوشحال پاکستان‘ بنے گا۔ (ان شاء اللہ)