اسلام آباد (صباح نیوز)حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف سے دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ مجھے اسلام آباد میں جو چند وزراء ملے ہیں ان کے چہروں سے لگ رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا میاب ہو رہی ہے۔ اس وقت ادارے بالکل نیوٹرل ہیں ، ادارے اگر نیوٹرل نہ ہوتے تو آج یہ حالات نہ ہو تے جس طرح ہو رہا ہے ادارے بالکل نیوٹرل ہیں اور رہنا بھی چاہئے یہ ایک جمہوری گیم ہے اور سیاستدانوں کو اپنی گیمیں کھیلنے دیں، اداروں کو سیاست میں بالکل نہیں گھسیٹنا چا ہیئے۔ عمران خان کی خواہش ہوتی تھی کہ عثمان بزدار کی تعریف کی جائے کہ وہ بہت کام کررہے ہیں اور بہت اچھا کا م کر رہے ہیں اور اکثر اجلاسوں میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔ وزیر اعظم نے اپنے اقتدارکو قائم رکھنے کے لئے اصولوں پر سوداکیا، جس عمران خان کو میں نے سنا تھا اور جوائن کیا تھا اس نے کمپرومائز کیا ہے ۔ میں نے خود کو پی ٹی آئی میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی تاہم میں پی ٹی آئی میں مطمئن نہیں تھا، شاید میرا پی ٹی آئی والا بریڈ ہی نہیں تھا۔ کرپشن کے بیانیہ پر میں چند کابینہ کے دوستوں کے سوا کسی کے ساتھ بھی بحث کرنے کے لئے تیار ہوں ۔
ان خیالات کا اظہار ندیم افضل چن نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کیا ۔ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے سے پہلے سنا تھااور میں عمران خان کے ساتھ شامل ہوا تھا اس وقت وہ وزیر اعظم نہیں تھے ، لیکن اب وہ وزیر اعظم پاکستان ہیں، وہ عمران خان مجھے پسند تھے لیکن آج ان کی بطور وزیر اعظم پالیسی مجھے اتفاق نہیں تھایہ سادہ سی بات ہے،میں نے خود کو پی ٹی آئی میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی تاہم میں پی ٹی آئی میں مطمئن نہیں تھا، شاید میرا پی ٹی آئی والا بریڈ ہی نہیں تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے مہربانی کی انہوں مجھے اپنا معاون خصوصی بنایا کیونکہ میرا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے ، کاشتکار ہوںمیں ہوچتا ہوں کہ چھوٹے صوبوں کی بھی بات کی جائے ، چھوٹے صوبوں پر عملی طور پر اس کے اوپرکام بھی کیا جائے، مزدور کی بات یہ باتیں ہوتی ہیں میں چاہتا تھا کہ ان چند چیزوں پر عمل بھی ہوجائے ۔
عمران خان کی تقاریر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ میں عمران خان نے بلاول بھٹو کے خلاف ایک تقریر کی تھی تو میں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ جناب یہ تقریر اگر مراد سعید کر لیں تووہ نوجوان آدمی ہے تو آپ ایسی تقاریر نہ کیا کریں میں نے یہ بات کابینہ میں کہی لیکن مجھے افسوس ہوا کہ کابینہ کے کسی رکن نے میری بات کی تائید نہیں کی ، میں نے کہا کہ شاید میں نے کوئی بڑی غلط بات کر دی ہے ، تو پھروزیر اعظم نے کہا کہ آج مجھے بڑی سکون سے نیند آئی ہیں ۔
ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی خواہش ہوتی تھی کہ عثمان بزدار کی تعریف کی جائے کہ وہ بہت کام کررہے ہیںاور بہت اچھا کا م کر رہے ہیں اور اکثر اجلاسوں میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے اور جب آپ پارٹی کے نمائندہ ہو تو پارٹی کی تعریف کرنی چاہئے پارٹی پالیسی کو سراہنا چاہئے یہ ہمارا فر ض بنتا ہے لیکن ہر بات پر فرض نہیں بنتا ، ہم سیاسی ورکر ہیں سیاسی ورکر اور عام آدمی میں جو اندھا پیر وکار ہوتا ہے اس میں فرق ہوتا ہے سیاسی ورکر ہو تو آپ کو قیادت کے سامنے سچی بات بھی کرنی چاہئے ۔ ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ہر پارٹی کا کلچر مختلف ہے لیکن عزت ایک مشترک چیز ہے، اخلاقیات ایک عام مشترک چیز ہے ،نظریہ ایک مشترک چیز ہے ، ساری سیاسی جماعتوں کا منشور اٹھا کر دیکھ لے تقریباََ ایک جیسا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے کر پشن کے بیانیہ سے میں آج بھی اتفاق کرتا ہوں ،اگر ساری کابینہ ایماندار ہوتی ،اگر ساتھ بیٹھنے والے سارے لوگ ایماندار ہو تے ، میں نے جس عمرا ن خان کو جوائن کیا تھا وہ اقتدار پرکمپرومائز نہ کرنے والا عمران خان تھا، اس نے کہا تھا کہ میں سمجھوتا نہیں کروں گا لیکن چند ووٹوں کی لئے اور اقتدار کو دوسال طول ینے کے لئے کرپٹ آدمی کو ساتھ بٹھاتے ہیں یا ان لوگوں کو جن کو آپ ہر وقت گالیاں دیتے رہے ہیں اوراس کا ثبوت ہے کہ نیب اور ایف آئی اے میں کیسز پڑے ہوئے ہیں۔ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو کوئی بیرونی خطرات ہیں تو ان کو چاہئے تھاکہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ، سیاسی پارٹیوں کو دعوت دیتے ،ان کے ساتھ شیئر کرتے ، قوم کو بتاتے کہ یہ خطرات ہیں اور پھر جو سیاسی پارٹی نہ کھڑی ہو تی تو وہ ایکسپوز ہو جاتی ۔
ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ جو انجام اس وقت کی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کا کیا اللہ نہ کرے کسی کا آئندہ ہو، ہم افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ پانچ، چھ ایم این ایز کو میں ملا ہوں میں نے ان سے کہاآپ کو کہیں سے فون آیا ہے، حالانکہ مجھے پتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی فون نہیں آیا ۔ان کا کہناتھا کہ اگر حکومت اپوزیشن کے بندے توڑے تو یہ کہتے ہیں ہمیں خود اپروچ کیا ہے اور اگر اپوزیشن ،حکومت کے بندوں کو اپروچ کرے تو وہ توڑے اور خریدے جارہے ہیں۔ جو حکومت کو اپروچ کرے وہ مفت اور جو اپوزیشن کو اپروچ کرے وہ خریدوفروخت یہ بات نہیں ہونی چاہیئے۔