مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے خلاف جرائم اور تشدد کے واقعات میں 7 فیصد اضافہ


 سری نگر۔۔۔ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھ گئے ہیں جبکہ تشدد کے واقعات میں 7 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر  ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد جموں وکشمیر خواتین کمیشن بھی ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے خواتین کی  شکایات کے لیے کوئی فورم موجود نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989 سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ہزاروں خواتین سمیت 95ہزار981شہریوں کو شہید کیا۔بھارتی فوجیوں نے جنوری 2001سے اب تک کم سے کم681خواتین کو شہید کیا۔

رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ بھارت کی جاری ریاستی دہشت گردی کے دووران 22ہزار 943 خواتین بیوہ ہوئی ہیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے11ہزار 250خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی آبروریزی اور شوپیاں کی سترہ سالہ آسیہ جان اور اس کی بھابھی نیلوفر بھی شامل ہیں جنہیں بے حرمتی کے بعد قتل کردیاگیا تھا۔

بھارتی پولیس کے اہلکارنے جنوری 2018میں کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغوا اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا ۔ بھارتی فوجیوں نے 10 فروری2021 کو ضلع بانڈی پورہ کے علاقے چیو اجس میں ایک بچی کے ساتھ بدسلوکی کی اور اسے گھسیٹ کر اپنی گاڑی میں ڈالا جب وہ اپنی بہن کے ساتھ اپنے باغ میں کام کررہی تھی ۔ اس کی بہن کی چیخ و پکار پرمقامی لوگوں نے موقع پر پہنچ کر بچی کو بچایا۔ متاثرہ خاندان نے اجس پولیس اسٹیشن میں مقدمہ در ج کرایا تھاتاہم بھارتی فوجیوںنے مقدمہ واپس لینے کیلئے مذکورہ خاندان کو حراساںکیا۔

رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقے میںبھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروںنے ہزاروں خواتین کے بیٹوں، شوہروں اوربھائیوں کو حراست کے دوران لاپتہ اورقتل کر دیا ہے ۔دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم کے مطابق گزشتہ34برس کے دوران 8ہزار سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیاگیا ہے ۔

رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ ہزاروں کشمیری نوجوان ، طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے پر امن مظاہرین پر گولیوں اورپیلٹ گنوں کے وحشیانہ استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں ۔ ان زخمیوں میں سے 19ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار، دو سالہ نصرت جان ، سترہ سالہ الفت حمید ، انشا مشتاق،افرہ شکور ، شکیلہ بانو،تمنا،شبروزہ میر،شکیلہ بیگم اور رافعہ بانو سمیت سینکڑوں بچے اور بچیاں اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں ۔ گزشتہ سال جولائی میں بھارتی پولیس کے ایک کانسٹیبل اور ایس اپی او نے جموں کے علاقے ڈنسل میں ایک دلت بچی کی اجتماعی آبروریزی کی ۔