تحریک عدم اعتماد آئی تو بہت سارے لوگ حق میں ووٹ دینگے،یارمحمد رند


اسلام آباد (صباح نیوز)بلوچستان میں آبی وسائل ،توانائی اور پیٹرولیم کی وزارتوں کی سرگر میوں کے حوالے سے وزیر اعظم کے مستعفی معاون خصوصی اور پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے سابق صدر سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو اس وقت یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ گھبرا تے نہیں ہیں تاہم جو چیزیں ہو رہی ہیں وہ گھبرانے والی ہیں ۔ اگر تحریک عدم اعتما د آتی ہے تو پی ٹی آئی کے بہت سارے لوگ اس کے حق میں ووٹ دیں گے، اگر بات ووٹ تک پہنچی تو مجھے حکومت کے لئے بہت بھیانک منظر نظرآرہا ہے۔ بلوچستان میں پہلے کچھ چیزیں بکتی تھیں، کبھی زمینیں، کبھی ٹھیکے، کبھی کنٹریکٹ، کبھی گوادر، کبھی ساحل ، کبھی وسائل ، یہ سارے بکتے تھے مگرمجموعی طور پر وزیر اعلیٰ کی خریدوفروخت پہلی دفعہ ہوئی ۔میں نے کہا ہے کہ ساڑھے تین ارب روپے میں بلوچستان حکومت بیچی گئی اور اس کے شیئر ہولڈر کافی ٹھیکیدار ہیں، وہ سینیٹر بن کر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہارسردار یار محمد رند نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا ۔یارمحمد رند نے کہا کہ وزیر اعظم عدم اعتماد نہیں ہونے دیں گے جو اقتدار میں بیٹھے ہو تے ہیں وہ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل جائے ، وزیر اعظم تو اپنی ہرممکن حد تک کوشش کریں گے مگر مجھے لگتا نہیں ،ایک جو ہو اچلی ہے مجھے نہیں لگتا کہ اس کو روکا جا سکے گا اور مجھے یہی لگ رہا ہے کہ یہ ہوا حکومت کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر گھبرانا نہیں چاہئے لیکن مجھے سب اچھا نہیں لگ رہا، اچھا ہمیشہ حکمران کے لئے نہیں ہوتا ہے، اپوزیشن کے لئے کیا اچھا یا کیا برا وہ اچھے کی امید لگا کر بیٹھتے ہیں ، اچھا یا برا حکمران کے لئے ہوتا ہے جو اقتدا میں بیٹھا ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میرے استعفے کی وجہ تحریک عدم اعتماد نہیں، آ ج سے چار، پانچ مہینے پہلے جب عدم اعتماد کی کو ئی بات بھی نہیں تھی میں وزیر اعظم عمران خان سے ملا تھا اورانہیں اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا اور استدعا کی تھی کی مجھے آج تین سال ہو گئے میری آپ سے پہلی ملاقات ہو رہی ہے اور ایک دفعہ پہلے آپ نے مجھے میٹنگ میں بلایا تھا وہ بھی پورے بلوچستان کو بلایا تھا ، مجھے اکیلے نہیں بلایاتھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے وزیر اعظم سے کہا تھا کہ ہم اس سسٹم کے ساتھ نہیں چل سکتے، ایک توآپ خود ہمیں نظرانداز کررہے ہیں اور دوسرا آپ ایسے لوگوں کے کہنے پر فیصلے کررہے ہیں جن لوگوں کی کوئی سیاسی حیثیت اور اوقات ، اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کو ایک حیثیت اور اوقات دی ہوئی ہے،اس کی ایک خاندان کے حوالے سے حیثیت ہوتی ہے اور ایک اس کا اپنا کردار ہوتا ہے۔ میں نے عمران خان سے کہا کہ آپ نے نام نہاد قسم کی جو ذمہ داری مجھے دی ہے نہ میرے پاس دفتر ہے، نہ مجھے آپ کبھی کابینہ اجلاس میں بلاتے ہیں او رنہ بلوچستان کے حوالے سے بلاتے ہیں ۔مجھے فیصلہ کرنے میں کئی دن لگے اور مجھے افسوس یہ ہے کہ جب میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی عدم اعتماد بھی آگئی، میرے استعفیٰ کا عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ابھی جو پی ٹی آئی بلوچستان کا صدر بنایا گیا میں بھی مجھے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ آگے جا کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ انتخابات میں کچھ طاقتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ بلوچستان میں باپ پارٹی کو لانا تھا، اس وجہ سے مجھے الیکشن کے تین بعد 13970 ووٹ ڈبل اسٹیمپ کرا کر قومی اسمبلی کی نشست پر ہرایا گیا ، وہ تو  مجھے صوبائی اسمبلی میں بھی نہیں آنے دینا چاہتے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ انتخابات میں بلوچستان میں110فیصد ہیراپھیری ہوئی اور بہت کچھ ہوا ہے ، میں ابھی نہیں بتا سکتا ، بہت کچھ ہوا ہے اور بہت سارے فیصلے ہوتے ہیں، بلوچستان کے فیصلے بلوچستان کی عوام نہیں کرتی ،بلوچستان کی اسمبلی نہیں کرتی، بہت ساری قوتیں جو اسلام آباد میں بیٹھی ہیں وہ فیصلے کرتی ہیں کہ بلوچستان میں کس کو وزیر اعلیٰ بننا چاہئے ، کس کی حکومت آنی چاہئے، کون آئے اور کس طرح آئے۔ قدوس بزنجو کی حکومت کا بھی یہاں چند لوگوں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا اوروہ ہمارے وزیر اعلیٰ بن گئے۔