سب سے پہلے تو شعبان المعظم کی مبارکباد۔ بہت ہی مبارک اور محترم مہینہ۔ شب برات بھی آئے گی۔ آئندہ برس کے لیے لائحہ عمل طے ہوگا۔ خدائے بزرگ برتر ہم انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کریں گے۔ آج اتوار ہے۔ بچوں اور بڑوں کے درمیان مکالمے کا دن۔ اب تو پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں انتظار کرنے لگے ہیں۔ کچھ سوال کچھ باتیں سوچ کر بیٹھتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے بچوں کی سوچ اور خواب بھی بدل دیے ہیں۔ وہ نیٹ پر دوسرے ملکوں میں زندگی کی آسانیاں دیکھ کر اپنے شہروں کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ ملتان، فیصل آباد اور جہاں جہاں جنگ پڑھا جارہا ہے، اپنے ماں باپ سے پوچھتے ہیں کہ ہماری سڑکیں ایسی کیوں نہیں ہیں۔ یہ پیاری پیاری لمبی لمبی بسیں ہماری شاہراہوں پر کیوں نہیں چلتی ہیں۔ ہمارے ہاں زیر زمین ٹرین کب چلے گی۔ میں بھی یہ خواب برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اپنے وہ سارے خواب بلٹ ٹرین اور دوسرے خواب میں جمع کردیے ہیں کہ جب میرے پیارے وطن میں یہ سب کچھ ہورہا ہوگا تو میرے قارئین کی آئندہ نسل یہ ضرور کہے گی کہ یہ خواب محمود شام نے دیکھے تھے۔
ہم نے متبادل قیادتوں سے 28 سوالات کیے۔ پورے ملک سے لوگوں نے بہت پسند کیے۔ مگر جن سے سوالات کیے ان میں سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ عزیز بلاول تو لانگ مارچ میںمصروف ہیں۔ جو بھرے بسے شہروں سے گزر رہا ہے۔ کارکنوں کو بہترین کھانے میسر ہیں۔ راتیں ایئر کنڈیشنڈ خواب گاہوں میں گزرتی ہیں۔ کہاں 73 سال پہلے کا ہمارے دوست ملک چین کا لانگ مارچ۔ مشکل راستے۔ فاقے۔ مگر ایک دھن کہ چین کو آزاد اور خود مختار ملک بنانا ہے۔ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی تیاریوں میں محو ہیں۔ بین الاقوامی اور قومی طاقتوں کے مراکز سے رابطے میں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن تحریکِ عدم اعتماد کے لیے بار بار گنتی کرنے میں لگے ہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ان سوالات کا جواب دینے کی کیا جلدی۔ ہمارے قارئین اور احباب حالات سے بھی مایوس ہیں اور قیادتوں سے بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کس کے آگے بین بجارہے ہیں۔ کوئی جواب نہیں دے گا۔
مگر میں مایوس نہیں ہوں۔ سات دہائیوں کے مشاہدے اور تجربات مجھے اپنے نوجوانوں کے جنون اور جذبے سے سرشار رکھتے ہیں۔ حکمرانوں اور اشرافیہ کے رویے تو یہی رہے ہیں۔ مگر ہمارے نوجوانوں نے اپنی سحر خیزی اور وطن سے خلوص کی دھن میں اپنے طور پر بہت قربانیاں دی ہیں۔ یہ ساری سیاسی پارٹیاں ان نوجوانوں کی بدولت اقتدار کے ایوانوں اور وزیر اعظم ہاؤسوں میں داخل ہوتی رہی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان پر ہی دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ میں بھی سالک صاحب کی طرح یقین رکھتا ہوں کہ تقدیر عالم جوانوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ہمارے جوان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
میں نیٹ پر اعداد و شمار دیکھ رہا ہوں۔ ایسی مایوس کن فضا نہیں ہے۔60 فی صد شرح خواندگی بتارہے ہیں۔ اتنی ہی ہماری جوان آبادی ہے۔ پاکستان ایک نوجوان ملک ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت ایک سے دو کروڑ نوجوان یونیورسٹیوں میں علم کی شمع کے پروانے ہیں۔ کچھ پڑھ رہے ہیں، کچھ پڑھارہے ہیں۔ درسگاہوں پر نظر ڈالیں۔ بہت حوصلہ بڑھتا ہے۔ ہمارے بیٹے بیٹیاں مشکل حالات کے باوجود انہماک سے تعلیم کی منزلیں سر کررہے ہیں۔ یونیورسٹی گریجویٹس پانچ لاکھ کے قریب ہوں گے۔ ان میں ایک بڑی تعداد کمپیوٹر سائنس کے گریجویٹس کی ہے۔ پاکستان اگر چہ اسکول سے باہر نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے مگر غربت اور مفلسی کے باوجود 170 یونیورسٹیوں میں 15لاکھ طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ ان کی مائیں ہی جانتی ہیں کہ بھاری فیسوں کی ادائیگی کیا کیا ضروری خرچے روک کر کی جارہی ہے۔ علم کی تحصیل کا یہ جذبہ اور والدین کاایثار بے نتیجہ تو نہیں رہے گا۔ تعلیم تدریس تربیت تحقیق سے وابستہ یا فارغ التحصیل۔ طلبہ، طالبات، اساتذہ۔ پروفیسرز۔ وائس چانسلرز۔ رجسٹرار۔ سب ملک کا درد رکھتے ہیں۔ اپنے عظیم وطن کو دوسرے ملکوں کے برابر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دو سے تین کروڑ دماغ اپنے معاشرے کے لیے بہت ترقی پسندانہ خیالات رکھتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں معاشرے کو آگے لے جانے کے لیے بہت فارمولے اور تجاویز ہیں۔ ان دو تین کروڑ میں وہ این جی اوز بھی شامل ہیں جو تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔
میں تو پر امید ہوں یہ سب، ہم اور آپ اگر ہمت کریں تو وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو دوسری قومیں کررہی ہیں۔ ایک بار ہمارا جنوبی کوریا جانا ہوا۔ اس ترقی یافتہ۔ خود کفیل قوم میں ایک عجب جذبہ دیکھا کہ کوئی میٹنگ ہو۔ کسی کارخانے میں کسی کارپوریٹ آفس میں۔ میٹنگ کے آخر میں وہ سب اعلی ادنی چھوٹے بڑے منیجرز۔ مالکان اور مزدور مل کر باآواز بلند یہ کہتے تھے کہ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آئیے آج سے ہی شروع کردیں۔ اس عزم کے ساتھ یہ چھوٹا سا ملک پوری دنیا کے لیے گھریلو استعمال کی ضروری برقی مشینیں تیار کررہا ہے۔ ہم اپنی ضرورت کی بھی تیار نہیں کرپاتے۔
یہ ہماری آزادی کا 75واں سال ہے۔ ہم ڈائمنڈ جوبلی منارہے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بحران آتے ہیں۔ مشکلات ہوتی ہیں۔ لیکن وہ ہماری طرح مایوسی کے لحاف اوڑھ کر سونے کو ترجیح نہیں دیتی ہیں۔ اور نہ اپنے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرتی ہیں۔ ملک ہمارا ہے۔ یہاں ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں نے زندگی کی گاڑی کھینچنی ہے یہ دو فی صد تو آزمائش کے وقت ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ان کے بنگلے تو ملک کے ہر شہر۔ دبئی۔ سعودی عرب۔ لندن۔ بارسلونا۔ واشنگٹن۔ نیو یارک۔ لاس اینجلس میں ہیں۔ انہیںکسی محنت۔ تردد۔ جدو جہد کی ضرورت نہیں ہے۔ تگ و دو ایثار اور قربانی تو 98فی صد کا مقدر ہے۔ ہم پڑھے لکھے بھی ہیں۔ آئیے ایک باوقار۔ باشعور اور ذمہ دار قوم کی طرح اپنی ترجیحات متعین کریں جو ہمارے 28 سوالات سے ہی تشکیل پاسکتی ہیں۔ معاشرتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آبادی کا 20فیصد بھی تبدیلی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو باقی آبادی بھی پیروی کرنے لگتی ہے۔تو یہ تین کروڑ اساتذہ۔ ماہرین۔ طلبہ۔ طالبات۔ پوسٹ گریجویٹ۔ این جی اوز کیا تبدیلی کا راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ ہم سب کچھ خود کرسکتے ہیں تو ہم ان چند لاکھ اشخاص کی طرف کیوں دیکھتے ہیں؟
بشکریہ روزنامہ جنگ