سی پی این ای کے زیر اہتمام روزنامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹر عطاء الرحمن کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد


کراچی( صباح نیوز) کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے زیر اہتمام سی پی این ای کے سنیئر رکن ، ممتاز صحافی و روزنامی نئی بات کے گروپ ایڈیٹر عطاالرحمن (مرحوم) کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں سی پی این ای کے سینئر نائب صدر ایاز خان ، سیکریٹری جنرل عامر محمود، جوائنٹ سیکریٹری غلام نبی چانڈیو ، روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر مقصود یوسفی و دیگر اراکین سمیت صحافیوں اور مرحوم عطاالرحمن کے قریبی ساتھیوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر سی پی این ای کے سینئر نائب صدر ایاز خان نے کہا کہ عطاالرحمن کا شمار اس قبیل کے چند صحافیوں میں ہوتا ہے جو حقیقی معنوں میں صحافت کرتے تھے۔ان کااوڑھنا بچھونا صحافت ہی تھا۔ وہ صرف اپنی کہنا نہیں بلکہ دوسروں کی سننا بھی جانتے تھے،مجھے یاد ہے لاہور میں ایکسپریس کا لٹریری پروگرام تھا ، مجھے کال کرکے کہتے ہیں کہ مجھے بھی مدعو کرو اس پروگرام میں ، وہ آئے اور پورا پروگرام انتہائی شوق سے سننا۔

عطاالرحمن کا شمار اچھے صحافیوں میں ہوتا ہے آج بڑے صحافی تو بہت ہیں لیکن اچھے صحافی نایاب ہوگئے ہیں۔ روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر اور سی پی این ای کے رکن جناب مقصود یوسفی نے کہا کہ ایک اچھے اور بہترین صحافی کی نشانی ہے کہ وہ خبر کی گہرائی تک جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس میں حقائق جاننے کی لگن و جستجو رہتی ہے جو بخوبی عطاالرحمن میں موجود تھی۔ میرا ان سے بڑا دیرینہ تعلق رہاانہوں نے ہی مجھے نئی بات میں متعارف کروایا تھا۔ وہ بلاشبہ صحیح معنوں میں تحقیقی صحافی تھے جو حقائق پر مبنی صحافت کرتے تھے۔وہ اخبار کی سرکیولیشن پر بھی نظر رکھتے اور اسے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔

سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل جناب عامر محمود نے عطا الرحمان کے تعزیتی ریفرینس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ چلے جاتے ہیں ان کی یادیں رہ جاتی ہیں، ان سے رقبت رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ وہ ایسے شخص تھے جو اپنے اندر کائنات سمیٹے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود انتہائی عاجزی و انکساری کا عنصر ان میں تھا۔ معروف صحافی کالم نگار اور سچ نیوز کے اینکر پرسن نصرت مرزا نے کہا کہ عطاالرحمن بین الاقوامی معاملات پر گہرئی نگاہ رکھتے تھے۔ وہ منکسر مزاج اور خاموش طبع شخصیت کے مالک تھے۔

نیو نیوز کے بیورو چیف اے ایچ خان زادہ نے عطاالرحمن کے تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے صحافتی میدان میں ان کے ساتھ قدم رکھا، ان کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ بہت افسوسناک بھی ہے اور انتہائی تابناک بھی، جب ہم صحافتی دنیا میں آئے اس وقت دائیں اور بائیں بازو کی سیاست بھی زور پر تھی اور صحافت بھی۔ اس وقت اگر کوئی کسی سے اختلاف بھی رکھتا تھا تو انتہائی مہذیب انداز میں ، اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے، جس کا رواج موجودہ دور میں ختم ہوگیا ہے۔وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اگر اختلاف بھی کرنا ہے تو دلیل و برھان کے ساتھ کیا جائے۔ وہ خبر، تجزیہ اور تبصرے میں واضح فرق رکھتے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ ہمیں جدید دور کے ساتھ چلنا چاہے جدید آلات کا استعمال بالکل کرنا چاہئے، ان پر سوار ہونا چاہئے نہ کہ انہیں اپنے پر سوار کرلیا جائے۔

سعید خاور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ان کا تعلق وزیر آباد کے پہلوان خاندان سے تھا، ان کی تربیت میں مولانا مودودی صاحب کا اہم اور موثر کردار تھا، ان کی شخصیت میں اسلام، پاکستانیت کا عنصر انہیں سے آیا تھا۔ ایک بار ان کی بیٹی کی شادی تھی جس میں میاں نواز شریف بھی مدعو تھے، لیکن کسی وجہ سے وہ آنہ سکے تو تحفہ بھجوا دیا جس پر انہوں نے تحفہ لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ میں نے میاں صاحب کو بلایا تھا تحفے کو نہیں۔

ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ، میرا مختلف شہر میں رہنے کہ وجہ سے ملاقات کم ہی تھی لیکن جب بھی نئی بات کے معاشی معاملات کے حوالے سے کوئی اقدام ہوتا تو وہ پیش پیش رہتے، ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو زمانے کو بنانے والے تھے، نصیر سلیمی نے آن لائن اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ صحافتی میدان میں ان کا جو کردار ہے اسے بیان کرنا ممکن نہیں، ان کا کتاب سے بہت گہرا تعلق تھا ان کی طبیعت میں تجسس تھا ، جس کے باعث وہ کبھی سوال کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ پروفیشنل صحافت سے ان کی کمٹمنٹ واضح تھی، وہ ہر موضوع پر تبدلہ خیال کرتے تھے۔

نیو نیوز کے ڈائرکٹر نیوز محمد عثمان نے کہا کہ وہ میاں نواز شریف سے بہت قر بت رکھتے تھے، ان کے کالم میں اسلام، نظریہ پاکستان ، جمہوریت کا عنصڑ نمایاں تھا، وہ جمہوریت پر کوئی حرف برداشت نہیں کرسکتے تھے، ایک بار میاں نواز شریف کے کسی اقدام سے جمہوریت کی بقا کو نقصان پہنچا تو دل برداشتہ ہو کر انہوں نے ”الوداع نواز شریف الوداع”کے عنوان سے یاد گار کالم لکھا۔

راشد عزیز فواد احمد ، شکیل چوہان اور رضوان بھٹی نے کہا کہ وہ انتہائی سادہ طبعیت کے مالک تھے، ان میں زمینی حقائق جاننے کی جستجو تھی، عطاالرحمن اصول پسند اور صاحب رائے رکھنے والے شخص تھے۔صحافت کی نرسری تھے، جو نئے آنے والے صحافیوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ان کی تحریروں میں ادب جھلکتا تھا۔

دریں اثنا سی پی این ای کے سنیئر اراکین عارف بلوچ، ڈاکٹر جبار خٹک، عبدالخالق علی ، اعجاز الحق، سعید خاور، طاہر نجمی، محمد طاہر، بشیر میمن ، شیر محمد کھاوڑ، حسینہ جتوئی، محمود عالم خالد، سجاد عباسی ، نصیر ہاشمی، عبدالسمیع ، سلمان قریشی، شاہد عثمان، ذیشان، راشد عزیز، محمد عثمان، اے ایچ خان زادہ، فواد احمد، نصیر اللہ چودھری، رضوان بھٹی، رائے فیاض، شفقت عزیز، امجد پرویز، عمران احمد ، خلیل ناصر ، شکیل چوہان سمیت دیگر نے تعزیتی اجلاس میں شرکت و خطاب کیا اور عطاالرحمن مرحوم اور سانحہ پشاور کے شہدا ء کیلئے فاتحہ و دعائے مغفرت کی گئی۔

علاوہ ازیں کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر کاظم خان نے ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمینڈ) کے انتخابات کے انعقاد اور نو منتخب صدر اظہر عباس، سینئر نائب صدر ایاز خان، نائب صدر عماد یوسف، جنرل سیکریٹری حافظ طارق محمود، جوائنٹ سیکریٹریز محمد عثمان و میاں طاہر اور شہاب محمود کو فنانس سیکریٹری جبکہ زاہد مظہر، فرحان ملک، راشد محمود، محمد مالک، حبیب اکرم، فواد خورشید، اویس بلوچ، مبارک علی اور نوشاد علی کو ایگزیکٹو کمیٹی کا رکن منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے خیر مقدمی بیان میں کہا ہے کہ ایمینڈ الیکٹرانک میڈیا کے ایڈیٹرز ونیوز ڈائریکٹرز کی نمایاں آواز بن کر ابھری ہے اور سی پی این ای کا ایمینڈ کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پی این ای تمام میڈیا تنظیموں کے ساتھ مل کر آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے لئے بھرپور کردار ادا کرتی رہے گی۔