پیکا ترمیمی آرڈیننس کیخلاف ن لیگ کی درخواست ناقابل سماعت قرار


اسلام آباد (صباح نیوز)چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022کے خلاف دائر درخواست ناقابل سماعت قراردے کر مسترد کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان مسلم لیگ( ن) کی پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست پرسماعت کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قراردیا ہے کہ (ن)لیگ پارلیمنٹ میں موجود ہے وہاںاپنا کردار ادا کرے ،سیاسی جماعت کا عدالت آنا پارلیمنٹ کی بے توقیری ہے۔ پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں اور غیر ضروری درخواستیں عدالت میں نہ لائیں۔پارلیمنٹ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ مجلس شوریٰ میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ غیر ضروری چیزوں کو لے کر عدالتوں میں آئیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کریں جو سیاسی جماعتیں ہیںمجھے ان کا بہت احترام ہے لیکن سیاسی جماعتیں غیر ضروری طور پر عدالتوں کا دروازہ نہ کھٹکھٹائیں بلکہ انہیں پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہئے اوروہاں پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کا یہاں آنا پارلیمنٹ کی بے توقیری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس کوئی متبادل فورم نہیں ہوتاوہ توعدالت آسکے ہیں تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن)ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اورپارلیمنٹ میں اس کی نمائندگی ہے اورکیسے صرف عدالت میں آکر ریلیف مانگ سکتی ہے، جبکہ اس کے پاس ایک متبادل فورم موجود ہے جو پارلیمنٹ ہے۔

عدالت نے کہاکہ پارلیمنٹ نہ صرف سپریم باڈی ہے جو قانون بناتی ہے بلکہ اس کو آئین میں بھی ترمیم کااختیار ہے لیکن کیا اتنی سپریم باڈی کے ارکان کو عدالتوں میں آنا اچھا لگتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم کسی سیاسی جماعت کو اس کیس میں علامتی طور پر فریق نہیں بننے دیں گے لہذا یہ درخواست ناقابل سماعت ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست پر تحریری حکمنامہ بھی جاری کیا جائے گا

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق پہلے ہی یہاں درخواستیں زیر سماعت ہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی سنا ہے، سیاسی جماعتوں کو محض علامتی طور پر بھی نہیں سن سکتے۔

واضح رہے کہ درخواست (ن)لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کی جانب سے گذشتہ روز دائر کی گئی تھی اور عدالت سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے کالعدم قراردینے کی استدعا کی گئی تھی۔