جنیوا(صباح نیوز)پاکستان دنیا کے ان چار ممالک میں شامل ہے جہاں 2023 میں دنیا بھر میں دوران زچگی ہونے و الی ماؤں کی مجموعی اموات کا نصف اموات ہوئیں۔اقوام متحدہ کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان، نائجیریا، بھارت اور جمہوریہ کانگو سمیت ان چار ممالک میں شامل ہے، جہاں 2023 میں دنیا بھر میں دوران زچگی و دوران حمل ہونے و الی ماوں کی 2 لاکھ 60 ہزار اموات کا نصف اموات ہوئیں۔
ان اعدادوشمار نے امریکا اور برطانیہ کی جانب سے امدادی فنڈنگ میں کمی کے اثرات کے بارے میں سخت خطرات کو جنم دیا ہے۔اقوام متحدہ کی تین ایجنسیوں نے ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا ہے کہ زچگی کی اموات میں وہ اموات شامل ہیں جو بچے کی پیدائش یا حمل کے دوران پیچیدگیوں سے متعلق ہیں۔زچگی کی اموات کے رجحانات کی رپورٹ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کے جنسی اور تولیدی صحت کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے 7 اپریل کو عالمی یوم صحت کے موقع پر شائع کی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ نائجیریا میں دوران زچگی ماوں کی اموات کی سب سے زیادہ تعداد تھی اور 2023 میں اندازے کے مطابق زچگی کے دوران ہونیو الی تمام اموات میں افریقی ملک کا حصہ ایک چوتھائی سے زیادہ (28.7 فیصد) حصہ تھا، جس میں تقریبا 75 ہزار اموات ہوئیں۔2023 میں صرف تین دیگر ممالک میں 10 ہزار سے زیادہ دوران زچگی ماوں کی اموات ہوئیں، بھارت اور کانگو میں 19، 19 ہزار مائیں بچوں کو جنم دیتے ہوئے موت کا شکار ہوگئیں، جبکہ پاکستان میں مجموعی طور پر 11 ہزار اموات ہوئیں۔
بھارت اور کانگو کا عالمی سطح پر دوران زچگی ہونے والی اموات میں 7.2 فیصد جبکہ پاکستان کا حصہ 4.1 فیصد تھا۔رپورٹ کے مطابق 2023 میں دوران زچگی ہونیو الی ماوں کی 47 فیصد اموات ان چاروں ممالک میں ہوئیں۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امداد میں غیر معمولی کٹوتیوں سے دوران زچگی اموات میں کمی لانے کی عالمی پیش رفت خطرے میں پڑ رہی ہے، اور رپورٹ میں دائیوں اور دیگر صحت کے کارکنوں پر زیادہ سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2000 اور 2023 کے درمیان دوران زچگی اموات میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی، جس کی بڑی وجہ ضروری صحت کی خدمات تک بہتر رسائی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے چونکہ امدادی فنڈنگ میں کٹوتیوں کی وجہ سے ممالک زچگی، نوزائیدہ اور بچوں کی صحت کے لیے اہم خدمات کو واپس لینے پر مجبور ہیں، تو اقوام متحدہ کی ایجنسیاں دوران زچگی اموات کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کرتی ہیں، خاص طور پر مختلف بحرانوں اور تنازعات کا شکار آبادیوں میں جہاں پہلے ہی یہ تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے ایک بیان میں کہا کہ اگرچہ یہ رپورٹ امید کی کرن دکھاتی ہے، لیکن اعداد و شمار یہ بھی اجاگر کرتے ہیں کہ آج بھی دنیا کے بیشتر حصوں میں حمل کا ٹھہرنا کتنا خطرناک ہے،
اس حقیقت کے باوجود کہ دوران زچگی اموات کی بڑی تعداد کا سبب بننے والی پیچیدگیوں کے تدارک اور علاج موجود ہے،زچگی کی معیاری دیکھ بھال تک رسائی کو یقینی بنانے کے علاوہ، خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی صحت اور تولیدی حقوق کو مضبوط کرنا بھی بہت ضروری ہوگا، یہ وہ عوامل ہیں جو حمل کے دوران اور اس کے بعد صحت مند نتائج کے امکانات کی بنیاد بنتے ہیں۔رپورٹ میں کووڈ-19 کی وبا کے دوران زچگی ماوں کی بقا پر اثرات کے پہلے اعدادوشمار بھی شامل کیے گئے ہیں۔تخمینے کے مطابق 2021 میں حمل یا بچے کی پیدائش کی وجہ سے مزید 40 ہزار خواتین ہلاک ہوئیں، یہ تعداد 2022 میں بڑھ کر 2 لاکھ 82 ہزار اور اگلے سال 3 لاکھ 22 ہزار ہو گئی۔اس اضافے کا تعلق نہ صرف کووڈ-19 کی وجہ سے ہونے والی براہ راست پیچیدگیوں سے بلکہ زچگی کی خدمات میں بڑے پیمانے پر در آنے والی رکاوٹوں سے بھی تھا، اس سے یہ یقینی بنانے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے کہ وبا اور دیگر ہنگامی حالات کے دوران زچگی کی دیکھ بھال کی سہولیات دستیاب ہوں۔یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا کہ جب حمل یا بچے کی پیدائش کے دوران یک ماں کی موت واقع ہوتی ہے، تو اس کے بچے کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر ماں اور بچہ دونوں ان وجوہات کی بنا پر جان سے چلے جاتے ہیں جن سے بچا کے طریقے ہم جانتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی فنڈنگ میں کٹوتیوں کی وجہ سے، خاص طور پر بحرانوں سے دوچار آبادیوں میں ،حاملہ خواتین کی بڑی تعداد خطرے میں پڑ رہی ہے، ایسے میں دنیا کو فوری طور پر دائیوں، نرسوں اور کمیونٹی ہیلتھ ورکرز میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ ہر ماں اور بچے کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا موقع مل سکے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خطوں اور ممالک کے درمیان مسلسل عدم مساوات کے ساتھ ساتھ غیر مساوی پیش رفت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔2000 اور 2023 کے درمیان سب صحارن افریقا میں دوران زچگی ہونے و الی اموات میں تقریبا 40 فیصد کمی آئی۔ سب صحارن افریقا اقوام متحدہ کے بیان کردہ ان تین خطوں میں بھی شامل تھا جہاں 2015 کے بعد دوران زچگی ماں کی اموات میں نمایاں کمی دیکھی گئی، دیگر خطے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور وسطی اور جنوبی ایشیا تھے۔تاہم، اس کے باوجود غربت کی بلند شرح اور متعدد تنازعات کی وجہ سے 2023 میں سب صحارن افریقا عالمی سطح پر دوران زچگی ہونے والی اموات کے تقریبا 70 فیصد کا ذمہ دار تھا۔دریں اثنا، پانچ خطوں میں 2015 کے بعد پیش رفت جمود کا شکار ہو گئی: ان میں شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا، مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا، اوشیانا (آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے علاوہ)، یورپ اور شمالی امریکا، اور لاطینی امریکا اور کیریبین شامل ہیں۔یو این ایف پی اے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کینم نے زور دیا کہ ماں کی صحت کی خدمات تک رسائی ایک حق ہے، کوئی مراعات نہیں۔انہوں نے حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے اچھی طرح سے وسائل سے لیس صحت کے نظام کی تعمیر کی فوری ذمہ داری پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ سپلائی چینز، دائیوں کی افرادی قوت، اور سب سے زیادہ خطرے میں موجود افراد کی نشاندہی کے لیے درکار غیر مربوط اعداد و شمار کو مربوط کرکے، ہم قابلِ انسداد زچگی کی اموات اور خاندانوں اور معاشروں پر ان کے زبردست اثرات کے المیے کو ختم کر سکتے ہیں اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بحرانوں اور تنازعات کا شکار آبادیوں میں زندگی گزارنے والی حاملہ خواتین کی پریشانی کو بھی اجاگر کیا گیا، جنہیں عالمی سطح پر کچھ خطرناک ترین خطرات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر دوران زچگی تقریبا دو تہائی اموات اب ان ممالک میں ہوتی ہیں جو پسماندہ یا تنازعات کا شکار ہیں۔حمل، بچے کی پیدائش اور بعد از زچگی ماں کی دیکھ بھال کے دوران اہم خدمات کو یقینی بنانے کے علاوہ، رپورٹ میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنا کر خواتین کی مجموعی صحت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان بنیادی عوامل کو روکنے کی کوششوں کی اہمیت پر زور دیا گیا جو خون کی کمی، ملیریا اور غیر متعدی بیماریوں کے خطرات کو بڑھاتے ہیں۔مزید برآں، رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ لڑکیوں کا اسکول میں تعلیم حاصل کرنا یقینی بنایا جائے، اور یہ کہ انہیں اور خواتین کو اپنی صحت کے تحفظ کا علم اور وسائل حاصل ہوں