امریکہ کے ساتھ آزاد اور ترجیحی تجارتی معاہدے کئے جائیں، ماہرین

 اسلام آباد(صباح نیوز)امریکہ کی جانب سے دنیا کے 180 ممالک پر 29 فیصد تجارتی محصول کے نفاذ کے بعدپاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی تجارتی حکمت عملی میں تنوع پیدا کرکے علاقائی تجارت کے نئے مواقع تلاش کرے تاکہ موجودہ بحران کے شدید اثرات سے بچا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے یہاں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام 29 فیصد محصول کا پاکستان کے لئے کیا مطلب ؟ کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار میں ممتاز ماہرینِ معیشت، تجارتی امور کے ماہرین، صنعتکاروں اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی۔سیمینار کا مقصد امریکی محصولات کی نئی پالیسی کے نتیجے میں پاکستانی برآمدات، خصوصا ٹیکسٹائل کے شعبے پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا اور بحران کو موقع میں بدلنے کے امکانات تلاش کرنا تھا۔اپنے استقبالیہ خطاب میں ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے کہا کہ اس مکالمے کا مقصد یہ جاننا ہے کہ نئی امریکی تجارتی پالیسی کی وجہ سے فوری نقصانات سے بچنے اور طویل المدتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے لئے ہمیں کن اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی 29 فیصد محصول کی تجارتی پالیسی پاکستان سمیت دنیا بھر کے 180 ممالک کو متاثر کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات میں امریکہ کا حصہ 19 فیصد ہے، جبکہ ان میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ 70 فیصد سے زیادہ ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ یہ شرح بنگلہ دیش (36 فیصد) اور ویتنام (46 فیصد) کے مقابلے میں کم ہے لیکن بھارت (27 فیصد) کے مقابلے میں زیادہ ہے، جس کے باعث مسابقت کا ماحول مزید سخت ہو گیا ہے۔سیمینار میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے تجارت و کسٹمز کے امور کے ماہر ڈاکٹر منظور احمد نے امریکی تجارتی پالیسی کی تاریخ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل پر مبنی ہے جس نے ہمیں انتہائی غیر محفوظ بنادیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت میں اب بھی پرانے حفاظتی قوانین اور ایس آر اوز کا غلبہ ہے، جن پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ آزاد اور ترجیحی تجارتی معاہدات کو فروغ دینا چاہئے۔

انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی برآمدات کا حجم جی ڈی پی کے محض 10 فیصد کے برابر ہے، جبکہ ویتنام میں یہ شرح 100 فیصد کے قریب ہے۔اسی طرح پاکستان کی آمدنی میں بین الاقوامی تجارت کا حصہ 40 فیصد سے کچھ زیادہ ہے، جو اصلاحات کی اشد ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سے وابستہ ماہرِ معیشت ڈاکٹر عادل ناخدانے اپنے خطاب میں تجارتی لاگتوں میں اضافے اور امریکی تجارتی مذاکرات میں ٹیکسٹائل مصنوعات کو کم ترجیح دیے جانے کا حوالہ دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی برآمدات میں جدت اور تکنیکی انضمام کو فروغ دینا ہوگا۔ویتنام کی الیکٹرانکس انڈسٹری ایک عمدہ مثال ہے۔پاکستان کو بھی زراعت، خدمات اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں اپنی برآمدات کو وسعت دینی چاہئے۔پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کے سی ای او محمد حسن شفقاط نے سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی محصولاتی نظام کو ایک طرف خطرہ اور دوسری طرف موقع قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں اور برآمدکنندگان کے نقصانات کے ازالے کے لئے اقدامات اٹھانے کے علاوہ برآمداتی مارکیٹوں میں تنوع پیدا کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے جھٹکوں سے محفوظ رہا جا سکے