مانسہرہ میں خاتون اور اس کی 16 ماہ کی بیٹی غیرت کے نام پر قتل

اسلام آباد(صباح نیوز)خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں ایک خاتون اور اس کی 16 ماہ کی بیٹی کو مبینہ طور پر ان کے رشتہ دار نے غیرت کے نام پر گولی مار کر قتل کر دیا۔ پولیس نے صدر تھانے میں دفعہ 34، دفعہ302، دفعہ 452، دفعہ 506 کے تحت ایف آئی آر درج کر لی، کیس کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ بی بی سی کے زبیر خان کی رپورٹ کے مطابق عید الفطر کے بعد جمعے کو سعودی عرب میں مقیم محمد عمر کی مانسہرہ میں اپنی اہلیہ رابعہ شاہ سے فون پر صرف مختصر بات ہی ہو سکی تھی کیونکہ ان کی اہلیہ نے انھیں کہا تھا کہ وہ نماز کی ادائیگی کے بعد ان سے دوبارہ بات کریں گی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔عمر کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد بار بار اپنی اہلیہ کو فون کرتے رہے لیکن دوسری طرف کسی نے ان کی کال نہیں اٹھائی اور بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ رابعہ شاہ اور 16 ماہ کی بیٹی عائزہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔

مانسہرہ پولیس کے ڈی ایس پی جاوید خان کے مطابق محمد عمر کی اہلیہ اور 16 ماہ کی بیٹی کو مبینہ طور پر نام نہاد غیرت کے نام پر مقتولہ کے اہل خانہ نے قتل کیا اور فی الحال ملزمان کی تلاش جاری ہے۔دہرے قتل کا یہ واقعہ مانسہرہ کے علاقے جابہ میں 4 اپریل کو پیش آیا تھا اور اس کا مقدمہ محمد عمر کی والدہ نسرین کی مدعیت میں درج کیا گیا۔اس دہرے قتل کے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے نسرین بی بی کا کہنا تھا کہ میری بہو نے ملزمان سے کہا تھا کہ میری 16 ماہ کی بیٹی کو کچھ نہ کہو، وہ کم عمر ہے، معصوم ہے۔ اس نے فریادیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ چچا مجھے بھی مت مارو مگر انھوں نے کوئی رحم نہیں کیا، انھیں کوئی ترس نہیں آیا۔

نسرین بی بی مزید کہتی ہیں کہ ان کی بہو کے خاندان والے بیٹے کی شادی پر راضی نہیں تھے اور اسی لیے دونوں نے 2022 میں عدالت میں شادی کر لی تھی۔ہم نے اپنے بیٹے کو سمجھایا تھا کہ ایسا مت کرو، تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو اور وہ رشتہ نہیں دے رہے، اسی لیے تم دونوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔نسرین بی بی مزید کہتی ہیں کہ ‘میرا بیٹا اور بہو نہیں مانے اور کورٹ میرج کر کے کراچی چلے گئے۔ بعد میں ان کا ہاں بیٹی کا جنم ہوا اور میرا بیٹا ویزا لے کر سعودی عرب چلا گیا۔’ان کا کہنا تھا کہ اپنے بیٹے کی سعودی عرب روانگی کے بعد وہ اپنی بہو اور پوتی کو اپنے ساتھ مانسہرہ لے آئیں تھیں۔نسرین بی بی کے بھائی محمد شفیق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ لوگ کئی سالوں سے مسلسل راضی نامے کے لیے کوششیں بھی کر رہے تھے لیکن ہمیں ہمیشہ نہ ہی سننے کو ملا۔انھیں امید تھی کہ لڑکا بیرون ملک ہے لہذا بہو اور اس کی بیٹی کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔دہرے قتل کے اس واقعے کا مقدمہ تھانہ صدر مانسہرہ میں درج کیا گیا تھا جس میں ابتدائی طور پر غیرت کے نام پر قتل کی دفعات شامل نہیں تھی۔مانسہرہ کے ڈی ایس پی کے مطابق بعد میں درج کیے گئے مقدمے کی ضمنی ایف آئی آر میں غیرت کے نام پر قتل کی دفعات شامل کی گئیں ہیں جس کے بعد اس مقدمے میں راضی نامہ نہیں ہو سکتا۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔4 اپریل کو پیش آنے والے واقعے کی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ نسرین بی بی نے پولیس کو بتایا کہ جمعے نماز کے وقت تقریبا ایک بجے وہ اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں اور ان کی بہو رابعہ شاہ اور پوتی عائزہ نور بھی گھر میں ہی موجود تھیں۔اسی اثنا میں رابعہ کا کزن اندر آیا جسے میں نے کہا کہ بیٹھو کھانا کھا۔ وہ گھر کا جائزہ لے کر واپس چلا گیا۔ایف آئی آر کے مطابق نسرین بی بی کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد رابعہ کے چچا تین نامعلوم اشخاص کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور (رابعہ کے) چچا نے میری کنپٹی پر بندوق رکھ دی اور تینوں نامعلوم اشخاص میری بہو کے کمرے میں داخل ہوئے تو میری بہو نے ایک شخص کو کہا کہ چچا مجھے مت مارو۔ اسی شخص نے قتل کے ارادے سے بہو پر فائرنگ کر دی اور میری بہو زخمی ہو کر گر گئی۔درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح دوسرے نامعلوم شخص نے چھوٹی بچی پر فائرنگ کی جس کومختلف جگہوں پر زخم آئے۔فائرنگ کرنے کے بعد ملزمان فرار ہوگئے، بہو اور پوتی موقع ہی پر دم توڑ گئیں۔ وجہ عداوت بہو کی بیٹے کے ساتھ کورٹ میرج تھی۔محمد شفیق بتاتے ہیں کہ قتل کے بعد جب وہ رابعہ اور عائزہ کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے لے کر جا رہے تھے تو مخالف گروہ نے انھیں روک لیا اور کہا یہ ہماری لڑکی ہے اور اس کا جنازہ ہم خود کریں گے۔ جبکہ کم عمر بچی کی لاش ہمیں دے دی۔وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے مزید قتل و غارت سے بچنے کے لیے مخالف گروہ کو بہو کی میت لے جانے کی اجازت دے دی تھی جبکہ پوتی کی تدفین انھوں نے خود کی ہے۔

دوسری طرف ڈی ایس پی مانسہرہ پولیس جاوید خان کا کہنا ہے کہ مقتولہ کی لاش کو باہمی رضامندی سے اس کے والدین کے حوالے کیا گیا تھا۔مگر ان کے بقول پولیس نے ضابطے کی تمام کاروائی مکمل کی ہے جس دوران لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی کروایا گیا ہے اور اس میں معلوم ہوا ہے کہ دونوں اموات کی وجہ قریب سے فائرنگ ہے۔پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ملزمان کی تلاش جاری ہے۔رابعہ کے سعودی عرب میں مقیم شوہر محمد عمر نے فون پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ اور رابعہ سکول میں ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے اور دونوں نے بعد میں شادی کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن جب انھوں نے اپنا رشتہ رابعہ کے گھر بھیجا تو انھیں انکار کر دیا گیا۔ عمر کے مطابق ان کے اپنے والدین بھی رابعہ کے خاندان کی مرضی کے بغیر اس شادی کے حق میں نہیں تھے۔عمر کچھ عرصے تک کراچی میں مقیم رہے اور بچی کی پیدائش کے بعد اس کے بہتر مستقبل کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ اپنی اہلیہ کے گھر والوں کی نظر میں ملزم یا مجرم میں ہوں اور وہ میری غیر موجودگی میں میری اہلیہ کو کچھ نہیں کہیں گے۔جب میں سعودی عرب گیا تو میری بیٹی دو ماہ کی تھی اور اب 16 ماہ کی ہو چکی تھی۔ میں جب اپنے کام سے فارغ ہوتا تھا تو ویڈیو کال کر کے اپنی بیٹی کو دیکھتا رہتا تھا کہ کب اس کی ماں اسے سلا رہی ہے، اس کے ساتھ باتیں بھی کرتا تھا۔محمد عمر کے مطابق وہ سعودی عرب سے مانسہرہ جانے والے لوگوں کے ہاتھ ہمیشہ اپنی بیٹی کے لیے کھلونے، دیگر چیزیں بھیجا کرتے تھے اور اسی کوشش میں تھے کہ وہ کسی طرح اپنی اہلیہ اور بیٹی کو اپنے پاس بلا سکیں۔۔انھیں ڈر ہے کہ اگر وہ واپس پاکستان آئیں گے تو انھیں بھی قتل کر دیا جائے گا۔