سپریم کورٹ میں لیویز اہلکارکی پیکاایکٹ 2016 کے تحت17ماہ قید اور ملازمت سے برطرفی کی سزا کے خلاف دائر درخواست خارج

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سوشل میڈیا پر برہنہ تصاویراورویڈیو جاری کرکے نوجوان سے بھتہ طلب کرنے اور بلیک میل کرنے والے لیویز اہلکارکی پیکاایکٹ2016کے تحت17ماہ قیداورملازمت سے برطرفی کی سزا کے خلاف دائر درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو مواد کوپھیلاتا ہے وہ جرم کرتا ہے۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایسے آدمی کونوکری پرہونا ہی نہیں چاہیئے کل کوکوئی اوربڑاکام کرے گا۔ جبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر آپ جعلی برہنہ فوٹو بنائیں پھر بھی یہ جرم ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نیب بلوچستان کے ضلع ہرنائی سے تعلق رکھنے والے سزایافتہ مجرم محمد اسلم کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔2019 میں جرم ہواور ٹرائل کورٹ کی جانب سے 2021میں سزاسنائی گئی۔

ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کو17ماہ قید اور 20ہزارروپے جرمانہ کیا تھا جسے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے برقراررکھا تھا۔درخواست گزار کی جانب سے شیرامان یوسفزئی بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ شفقت محمود عباسی پیش ہوئے۔مدعاعلیہ عبدلباری سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری سے ویڈیولنک کے زریعہ پیش ہوئے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ دلچپ کیس ہے ، مدعاعلیہ کوگھر بلایا اور پھر ننگاکردیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ یہ پیکاقانون کے تحت جرم تھا، جو بھی درکارچیزیں تھیں وہ استغاثہ نے ثابت کردیں، درخواست گزارکافیس بک اکائونٹ تھااور ای میل ایڈریس تھا ، شریک ملزم نے کوئی چیز اپ لوڈ نہیں کی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ گھر کیسے پہنچااورننگا کیسے ہوگیا۔اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل شفقت عباسی کاکہنا تھا کہ درکارگزار بلیک میل کرکے پیسے مانگ رہا تھا اگر کوئی اوربات ہے بھی تووہ ریکارڈ پر نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ای میل ایڈریس درخواست گزارکے نام ہے۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ اُس کے مئوکل نے فیس بک پر نہیں بلکہ مسیجنر پر تصاویر اور ویڈیومدعا علیہ کوشیئر کی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ جرم فیس بک آئی ڈی سے متعلق ہے، ای میل آئی ڈی پر فیس بک ہے، اس کابری ہونے والے ملزم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ کیا بیان دیا کہ ہمارے خاندان کی کسی عورت کامسئلہ تھا اورپھراس کو تاوان کارنگ دے دیا۔ اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے پیکاقانون منگواکر متعلقہ شقیں پڑھوائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کس جرم میں سزاہوئی ہے۔ اس پروکیل کاکہنا تھا کا کہنا تھا کہ 24-dمیں۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ تصویریں دکھائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کے وکیل کہہ رہے ہیں کہ صرف برہنہ تصویر لگانا کافی نہیں بلکہ تصویر میں کوئی غلط کام ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ جس ملزم نے تصویریں شیئرکیں وہ بری ہوگیا ہے، درخواست گزاربلوچستان لیویز میں سرکاری ملازم ہے، 17ماہ سزائی ہوئی وہ کاٹ چکا ہے اور ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے تاہم برطرفی کا اطلاق سپریم کورٹ فیصلے کے تناظر میں ہوگا۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ ایف آئی آر او رمدعی کے بیان میں زمین آسمان کوفرق ہوتا ہے۔ مدعاعلیہ عبدالباری نے بتایا کہ اس کی برہنہ تصاویراورویڈیو بناکر 50لاکھ روپے تاوان طلب کیا گیا۔ عبدالباری کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے اپنی والدہ عالم بی بی کوڈرپ لگوانے کے بہانے رات 10بجے اپنے گھر بلایا اور پھر اسے برہنہ کرکے تصاویراورویڈیو بنائی۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ دھمکیاں بھی دیں اور ننگی تصویر بھی جاری کی،وکیل شواہد کے زریعہ اپنی باتوں کوثابت کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ شریک ملزم پر الزام نہیں تھا کہ اُس نے برہنہ تصاویرجاری کیں۔ وکیل نے ایف آئی آر پڑھ کرسنائی اور اس دوران تشریح کی کوشش کی۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کوہدایت کی کہ آپ صرف پڑھیں اور آگے نہ بڑھیں، وکیل صاحب پہلے پوراپڑھیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ صرف اورصرف محمد اسلم پر الزام ہے وہی اپنی فیس بک آئی ڈی پر لگارہا ہے ، شریک ملزم کی سم کواپنی فیس بک آئی ڈی بنانے کے لئے استعمال کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ جو مواد کوپھیلاتا ہے وہ جرم کرتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ وکیل زبانی بات نہ کریں بلکہ شواہد سے جودکھانا ہے دکھائیں،جوپڑھنا چاہیں وہ ریکارڈ اورگواہی سے پڑھیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ معاملہ کو سمجھنے کے لئے کیس آئی ٹی ماہر کوبلایا جائے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ یہ ٹرائل کورٹ میں درخواست دیتے کہ کسی آئی ٹی ماہر کوبلایا جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار ڈسپلن فورس کااہلکار ہے اس کو زیادہ ذمہ دارہونا چاہیئے، دونوں موبائل فون اورسمیں درخواست گزار کے قبضہ سے برآمد ہوئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کوپیکاایکٹ کی دفعہ 24اور1-dمیں بھی سزاہوئی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ اگرسوشل میڈیا پر جاری نہیں کرنا تھا توکیا تصاویر اور ویڈیوشوقیہ بنائی تھیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ کاچہرہ نظرنہیں آرہا بلکہ دوتصویروں کوجوڑاگیا ہے۔

جسٹس ملک شہزاداحمد خان کادرخواست گزارکے وکیل پر برہمی کااظہارکرکرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ آپ خود ہی لگے رہتے ہواور سنتے نہیں، یہ باتیں ٹرائل کورٹ میں کرتے کہ تصویروں کوجوڑا گیا ہے، ہوسکتا ہے ہم جو بات کررہے ہوں وہ درخواست گزار کے فائدہ کی ہو۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ اگر آپ جعلی برہنہ فوٹو بنائیں پھر بھی یہ جرم ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل بیروزگارہوجائیں گے۔ اس پر جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ٹھیک ہے جاکرمزدوری کریں، ایسے آدمی کونوکری پرہونا ہی نہیں چاہیئے کل کوکوئی اوربڑاکام کرے گا۔جسٹس اطہر من اللہ کادلائل سننے کے بعد کہنا تھا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ بینچ نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔