لودھراں (پنجاب) سے سید عبید بخاری صاحب نے سوال کیا ہے
”درست کیا ہے، معروض ہوا یا عارض ہوا؟“
درست و نادرست کی بات تو آگے چل کر ہوگی۔ نئے قارئین کی خدمت میں عرض کرتے چلیں کہ عارضہ یہ ہماراپرانا ہے کہ ایک لفظ کی پونچھ پکڑ کر اسے دُور تک ’پوکھیاتے‘ چلے جاتے ہیں۔اب یہی دیکھ لیجے کہ لفظ ’پوکھیانا‘ متروک ہو چکا ہے، حتیٰ کہ لغات سے بھی خارج ہوگیا، مگر عمل(پوکھیانا) یاروں نے اب تک ترک نہیں کیا۔ ’پوکھیانے‘ کے معنی ہیں لٹھ لے کر کسی کے پیچھے دوڑ پڑنا، اُس کا پیچھا کرنا اور اُسے پکڑنے کے لیے اُسے دُور تک دوڑائے لیے چلے جانا۔پوربی لفظ ہے۔ بالعموم بِدکے ہوئے بیل یا کسی اور بھگوڑے مویشی کو پکڑنے کے لیے ڈنڈا لے کر ’پوکھیایا‘ جاتا ہے۔ہم جیسے لوگوں کو تو شیطان بھی دُور تک ’پوکھیاتا‘ ہے۔البتہ متقی لوگ لاحول پڑھتے ہوئے دوڑجاتے ہیں۔
توصاحب! عرض ہے کہ’عرض‘ کے بہت سے معانی ہیں۔ ایک مطلب ہے پیش کرنا، سامنے لانا، دکھانا۔اسی سے التماس، درخواست اور گزارش وغیرہ کے معنی لے لیے گئے کہ درخواست یا گزارش بھی پیش کی جاتی ہے، سامنے لائی جاتی ہے اور دکھائی جاتی ہے۔ ’عرض کرنا‘ بیان کرنے، کہنے اور اپنا مدعا پیش کرنے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ احسان دانشؔ مرحوم کا قاصد (یا نائب قاصد) اُن کے محبوب کاخود دیدار کرنے کے چکرمیں آئے دن اُن کے سر پر سوار ہو جاتا ہوگا۔ پس ایک روز اُنھوں نے اُس کی چھٹی کردی اور یہ اطلاع دے کراُسے ’پوکھیا‘ دیا کہ
آج کی تاریخ سے سب نامہ و پیغام بند
اُن سے جو کچھ عرض کرنا تھا زبانی کر دیا
پھراپنے اِس اقدام پر اُنھوں نے فخر بھی فرمایا کہ ”کیسے مشکل مسئلے کو ہم نے پانی کر دیا“۔نہیں معلوم کہ یہ خیال کیسے عام ہوا کہ عرض کرنے، درخواست کرنے یا درخواست پیش کرے والے کو ’عارض‘ کہنا چاہیے۔ آج بھی کچھ لوگ اپنی درخواست کے نیچے اپنا نام لکھنے سے پہلے ’العارض‘ لکھنے کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ لغت میں تو ’عارض‘ کے ایسے معانی ملتے نہیں۔ پس ”عارض ہوا“ نادرست ہوا۔
’عارض‘ کے ایک معنی رُخسار یا گال کے بھی ہیں۔اسرارالحق مجازؔ کی نظمِ مثلث کے یہ تین مشہور مصرعے آپ نے سنے ہی ہوں گے:
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زورِ شباب اور زیادہ
’عرض‘ کے دوسرے معنی ’چوڑائی‘ کے ہیں۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں ’طول و عرض‘ کا مطلب ہے لمبائی اور چوڑائی۔’عرض‘ کے تیسرے معنی ہیں ’لاحق ہونا‘ یعنی کسی ایک تکلیف کی وجہ سے دوسری تکلیف میں مبتلا ہوجانا۔ حکیم محمد یامین صدیقی مرحوم کہا کرتے تھے کہ
”بخار مرض نہیں ہے، مرض کا عرض ہے“۔
مطلب یہ کہ بخار آنے کا اصل سبب کوئی اور مرض ہوتا ہے،مثلاً گلا خراب ہونا، کھانسی، نزلہ، زکام یا جسم کے اندرونی حصے میں تکلیف ہونایاکوئی زخم پڑ جانا۔اِس ’عرض‘ کی نسبت سے ’عارض ہونا‘ پیدا ہونے یا نمودار ہونے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔یہی ’عارض‘ آگے چل کر ’عارضہ‘ بن جاتا ہے یعنی بیماری یا روگ۔ ’عارضہ‘ عارض کے مؤنث کے طور پر بھی مستعمل ہے۔مگر اُردو میں زیادہ تر مرض یا روگ ہی کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ حضرتِ رندؔ کوجب دل کا روگ لگاتواُن کے دھڑکتے دل کو دھڑکا سا رہتا تھا کہ
کرے اُدھر کو سرایت نہ عارضہ دل کا
بہت قریب جگر سے ہے فاصلہ دل کا
جب کہ اتفاقیہ، چند روزہ یا غیر مستقل چیز کو ’عارضی‘ کہا جاتا ہے، جیسا کہ احسن اللہ احسنؔ نے اپنے عریضے میں کہہ ہی ڈالا:
یہی مضمونِ خط ہے احسن اللہ
کہ حسنِ خوبرویاں عارضی ہے
عرض و عارضہ کی جمع ’عُروض‘ ہے، ع پرپیش کے ساتھ۔ ع پر زبر کے ساتھ جو ’عَروض‘ ہے وہ ایک علم ہے جس میں نظم گوئی کے اصول و قواعد،وزن و بحر کے ارکان اور زحافات وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں۔ عارضہ کی جمع ’عوارض‘ بھی ہے۔’عریض‘ کے معنی تو ’چوڑا ہونے‘ کے ہیں،’طویل و عریض‘ عام بول چال میں بھی استعمال ہوتا ہے، مگر ’عریضہ‘درخواست یا گزارش پر مبنی خط کو کہتے ہیں۔ ایسی چٹھی جو چھوٹے کی طرف سے بڑے کو لکھی جائے۔بڑے لوگ بھی انکسار میں اپنی چٹھی کو ’عریضہ‘ کہہ دیتے ہیں مگر آپ کسی بڑے سے نہ کہہ دیجے گا کہ”حضرت! آپ کا عریضہ موصول ہوا“۔تحریری درخواست کو ’عرضداشت‘ یا ’عرضی‘ کہتے ہیں۔پہلے ڈاک خانے اور کچہری کے ارد گرد ’عرضی نویسوں‘ یا ’عرائض نویسوں‘ کا جمگھٹا ہوتا تھا لوگ اُن سے عرضیاں لکھواتے اور حکام کے آگے ’عرضی گزارتے‘ تھے۔ امیرؔ مینائی کو گلہ تھا
تحریر یار نے نہ پڑھی میری مدتوں
رکھے ہی رکھے طاق پہ عرضی گزر گئی
’مَعرِض‘ کہتے ہیں پیش کرنے کی جگہ، صورتِ حال، کیفیت یا جائے ظہور کو۔جیسے ”معاملہ معرضِ التوا میں پڑ گیا“۔یعنی معاملہ ملتوی ہونے کی حالت میں ہے۔’معرضِ وجود‘ پیدا ہونے کی حالت۔ ’معرضِ اظہار‘ بیان کرنے کی حالت۔ چچا غالبؔ فرماتے ہیں:
آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر مَعرِضِ اظہار میں آوے
؎ چچا اس قسم کے مشکل الفاظ استعمال کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔نہ صرف خوشی محسوس کرتے تھے بلکہ تعلّی بھی فرماتے تھے:
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
’معروض‘ کے معنی ہیں جو کچھ پیش کیا گیا یا جو کچھ عرض کیا گیا۔ لہٰذا اگر کوئی شخض یہ کہتا ہے کہ ”میں نے یہ معروض کیا“ یا ”میں یوں معروض ہوا“ تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ”میں نے جو بات کہی وہ یہ ہے“۔ پنڈت دیا شنکر نسیم کی مشہور مثنوی ”گلزارِ نسیم“ کا ایک شعر ہے:
معروض کیا کہ یا شہنشاہ
کم مایہ یہ لوگ ہیں بہ ظاہر
لیکن لفظ ’معروضی‘ کا مطلب بالکل الگ ہے۔معروضی کے معنی ہیں وہ مشاہدہ،جائزہ، فکر یا تجزیہ جس میں اپنے نفس، اپنی ذات یا اپنی انا کو کوئی دخل نہ ہو، بے لاگ، مخلصانہ اور بے تعصبانہ ہو۔غرض کہ لفظ ’عرض‘ کے اتنے مشتقات ہیں کہ سب کا احاطہ کالم میں ممکن نہیں۔
”عرضِ مطلب، عرضِ مدعا اور عرضِ نیاز“ جیسی تراکیب مطلب، مدعا اور محبت و عقید ت کے اظہار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ جامعہ کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ہمارے ایک ہٹے کٹے شاعر دوست جس ہم جماعت طالبہ سے پینگیں بڑھانا چاہتے تھے، اُنھوں نے دیکھا کہ کسی اور شعبے کا شاعر اُسے اپنی غزلیں سنا رہا ہے۔ رقیب کے قریب پہنچ کر اُنھوں نے جو کچھ کیا اُس کا خلاصہ خود یوں بیان فرمایا:
”حاطب بھائی! میرا خون کھول اُٹھا۔میں نے وہیں اُس کی ایسی پھینٹی لگائی کہ وہ پھر…… عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا“۔
٭٭