جو لکھا گویا ہے پتھر کی لکیر…تحریر احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

ڈاکٹر طاہر مسعود بہت شُستہ اور شائستہ زبان لکھتے ہیں۔ آج کل اپنی داستان لکھ رہے ہیں۔ داستان لکھتے لکھتے یہ بھی لکھ بیٹھے کہ

’’میں جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں اپنے حافظے پر بھروسا کرکے رقم کررہا ہوں جس میں سہو وخطا کا پورا امکان ہے۔ لہٰذا کسی غلطی کی نشان دہی کی جائے گی تو میں معذرت کے ساتھ اس غلطی سے رجوع کرلوں گا۔ میں خود کو ان میں شامل نہیں سمجھتا جو اپنے لکھے کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں‘‘۔

ایک صاحب نے یہ سوچ کر کہ غلطیوں کی نشان دہی کی دوڑ میں کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں، اسی عبارت میں غلطی پکڑنے کی کوشش کی اور جھٹ اعتراض جڑ دیاکہ محاورہ ’پتھر کی لکیر‘ نہیں ’پتھر پر لکیر‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حسبِ وعدہ معذرت کے ساتھ اس غلطی سے رجوع کرلیا اور تحریر میں تصحیح کردی۔ ’غلطی‘ سے رجوع کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اس عاجز سے رجوع کیا۔ اِس پر خاکسار یوں معروض ہوا:

’’نہیں صاحب ایسا تو نہیں ہے، محاورہ تو ’پتھر کی لکیر‘ ہی ہے۔ سرشارؔ صدیقی صاحب کہ اہلِ زبان تھے، اپنے کان ہی پور کے تھے، ایک مفتی خاندان یعنی علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ترقی پسند شاعر تھے، ان کی کتاب بھی ’پتھر کی لکیر‘ کے نام سے پائی جاتی ہے‘‘۔

ڈاکٹر طاہر مسعود نے مزید بتایا کہ وہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ سے بھی رجوع لائے ہیں، اُنھوں نے بھی ’پتھر کی لکیر‘ کو درست محاورہ قرار دیا ہے۔ تو صاحب!اب اور کیا چاہیے؟ ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب تو زبان پر سند ہیں۔ اُن کی تصدیق کو ’پتھر کی لکیر‘ جانیے۔

احمد فرازؔ مرحوم اگرچہ پشتو کے ’اہلِ زبان‘ تھے، پَر شاعری اُنھوں نے اُردو میں کی اور خوب کی۔ اُن کی ایک غزل دوستوں میں بہت مقبول ہوئی۔ وہی جس میں اُنھوں نے سنسنی خیز انکشاف فرمایا تھا کہ ’’ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘۔ اُسی غزل کا ایک شعر ہے:

کبھی پتھر کی لکیریں بھی مٹا کرتی ہیں؟
کتنا سادہ ہے ترا نام مٹانے والا

خیر اگر آپ فرازؔ کو سند نہیں مانتے تو نہ سہی، داغؔ کو تو مانتے ہوں گے، جن کا دعویٰ ہے کہ ’’اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ‘‘۔ تو داغؔ صاحب اپنے کلام کے متعلق یہ تعلّی بھی فرماگئے ہیں کہ

مستند کیوں کر نہ ہو ایسا کلام
جو لکھا گویا ہے پتھر کی لکیر

شیخ قلندر بخش جرأتؔ نے بھی اس محاورے کو استعمال کرنے کی قلندرانہ جرأت کی اور جرأت مندانہ نصیحت:

سر دیجے راہِ عشق میں پر منہ نہ موڑیے
پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہکن کی بات

فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں میں محاورہ ’’پتھر کی لکیر‘‘ ہی لکھا گیا ہے۔ اس محاورے کا مفہوم ہے ’نہ مٹنے والی، مستقل، مستحکم، پائیدار، پکی اور مضبوط چیز‘۔ نقش کالحجر۔ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ مولوی سید احمد دہلوی مرحوم نے اس ضمن میں ضرب المَثَل بھی نقل کی ہے:

’’رذیلوں کی دوستی پانی کی لکیر، شریفوں کی دوستی پتھر کی لکیر‘‘۔

یہ پُرانے زمانے کی مثل ہوگی۔ اب تو’پتھر کی لکیر والی دوستی‘ کی لکیر کسی مردِ شریف کی ہتھیلی میں ہوتی ہی نہیں۔ بالخصوص سیاسی شرفا کی ہتھیلیوں میں۔ فرازؔ ٹھیک ہی کہہ گئے تھے’’ دوست ہوتا نہیں…‘‘

خیر، یہ سب تو ’نقلی‘ دلائل تھے۔ عقلی دلائل بھی یہی کہتے ہیں کہ ’پتھر پر لکیر‘ ڈالنا سہل نہیں۔ کسی طرح ’پتھر پر لکیر‘ ڈال بھی دیجے تو ایسی لکیر امتدادِ زمانہ سے مٹ جاتی ہے۔ ہمارے کالموں کی قاری خواتین میں سے جن نانیوں، دادیوں نے سِل بَٹّے استعمال کیے ہیں اور اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے پِیسے ہوئے مسالوں کے پکوان کھلائے ہیں، اُنھیں خوب یاد ہوگا کہ سِل کو ہر پانچ چھے مہینے بعد چھینی (چھے نی) سے چِھنوانا پڑتا تھا کیوں کہ ہر پانچ چھے مہینے بعد پتھر پر ڈالی ہوئی لکیریں آپ سے آپ مٹ جاتی تھیں۔ پس جو لکیر پتھر کی پیدائشی لکیر ہو اصلاً وہی لکیر ’پتھر کی لکیر‘ ہے۔ ایسی لکیر کو چھینی سے چھیل چھیل ڈالیے تب بھی نہیں مٹے گی۔ پتھر ریزہ ریزہ ہوجائے گا، لکیر باقی رہ جائے گی۔

پتھر کی لکیر ہی نہیں، پتھر کی دیگر صفات کی بھی اُردو محاوروں اور اُردو اشعار میں ایسی بھرمار (بلکہ ایسا ’پتھراؤ‘) ہے کہ انھیں جمع کرنے بیٹھیے تو تعداد دیکھ کر آنکھیں پتھرا جائیں۔ ’پتھرا جانے‘ کا مطلب ہے پتھر ہوجانا، اور پتھر ہوجانے کا مطلب ہے سخت ہوجانا۔ مجازاً بے رحم ہوجانا۔ آنکھوں کی نسبت سے ’پتھرانے‘ کے دو معنی بنتے ہیں۔ ایک متحیر ہوجانا، دوسرے بینائی زائل ہوجانا یا آنکھ کی پُتلی کا بے حس ہوجانا۔ مثلاً مرنے والوں کے مرتے ہی اُن کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ قلقؔ کی آنکھ تو ایسی پتھرائی کہ پتھرا پتھرا کر ایک خاص پتھر میں بدل گئی:

گر پلک جھپکے شرر نکلیں، بجائے اشکِ گرم
آنکھ پتھرا کر عجب کیا ہے اگر چقماق ہو

کٹھور، کٹّر اور پتھر دل (یعنی سنگ دل) ہوجانے کے معنوں میں ’پتھر ہوجانے‘ کی مثال انشاء اللہ خان انشاؔ کی ایک پتھریلی غزل کے اس شعر میں ملاحظہ فرمائیے:

رقت آئی نہ مرے حال پہ تجھ کو، سچ ہے
ہو جو پتھر، کوئی کیا اس کو نچوڑے پتھر

’پتھر نچوڑنا‘ بھی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے سنگ دل کو موم کرنے کی ناکام کوشش۔بے رحم کے دل میں رحم پیدا کرنے کا ناممکن کام وغیرہ۔پتھر ہونا کے علاوہ ’پتھر ڈھونا‘ بھی ایک محاورہ ہے، جس کا مطلب ہے سخت محنت کرنا یا مشقت کا کام انجام دینا۔بقول مغفورؔ:

سنگ دل بس کہ ترے عشق میں ڈھوئے پتھر
چشم سے چشمۂ کُہسار کی، روئے پتھر

کہاوت تو یہی ہے کہ ’پتھر نہیں روتے‘ مگر کٹھور دل لوگوں کو شرم دلانے کے لیے اکثر بتایا جاتا ہے کہ ’کُہساروں کے دل پگھلے تو دریا ہوئے جاری‘۔ اس کے باوجوداُن کے دل کا پتھر نہیں پسیجتا۔ اُن کے بے رحم دل پر درد کی چوٹ نہیں پڑتی۔پتھر کا دل ہی نہیں، کچھ لوگ ’پتھر کا کلیجا‘ بھی رکھتے ہیں، اس کا مطلب بھی سخت یا بے اثر دل لیا جاتا ہے۔ایک شاعراپنے محبوب کو بتاتا ہے کہ’ظلم سہتے سہتے پتھر کا کلیجا ہو گیا‘۔

’’پتھر‘‘ کے عنوان سے احمد ندیم قاسمی کی ایک آزاد نظم بھی بہت مشہور ہوئی، جس کی ابتدائی چند سطریں کچھ یوں ہیں:

’’ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں

میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن،کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا؟

سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا،

یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر،جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے…‘‘

مشہور مزاح گو شاعر مشتاق احمد چاندنامرحوم، المعروف بہ مسٹرؔ دہلوی نے اس نظم کابہت دلچسپ جواب لکھا تھاجس کا بس پہلاہی مصرع یاد رہ گیا ہے:
’’ریت سے بُت نہیں بنتے مرے بھولے شاعر!‘‘