اسلام آباد(صباح نیوز)جوڈیشل مجسٹریٹ نے صحافی وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ رات گئے گرفتار کیے گئے صحافی وحید مراد کو عدالت میں پیش کیا گیا،ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیاجبکہ عدالت نے دو دن کا جسمانی ریمانڈ منظورکرلیا۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے صحافی وحید مراد کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا ہے۔ بدھ کو صحافی وحید مراد کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈسیشن کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت پیش کیا گیا۔ اس موقع پر عدالت میں صحافیوں کی بڑی تعداد ضلع کچہری میں موجود تھی۔ ایف آئی اے کی جانب سے ان پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
وحید مراد نے کہاکہ میں نے کہا اپنی شناخت کروائی، میری ساس کینسر کی مریضہ ہیں، میری ساس کینیڈا سے علاج کرانے کے لیے آئیں ہیں، 20 منٹ پہلے مجھے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے۔وحید مراد کے وکیل ہادی علی چٹھہ نے استدعا کی کہ ہمیں ایف آئی آر دیکھنے کی اجازت دی جائے، فریقین کے دلائل سننے کے بعد جج عباس شاہ نے صحافی وحید مراد کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔صحافی وحید مراد نے کہا کہ پولیس دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوئی، ساس کو بھی مارا گیا بیس منٹ پہلے مجھے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا۔وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ وحید مراد کو حبس بے جا میں رکھنے کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے ۔جج عباس شاہ نے استفسار کیا کہ وحید مراد کو کب گرفتار کیا گیا، ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کل رات گرفتار کیا گیا، بی ایل اے کی پوسٹس اور بلوچستان کے حوالے سے وحید مراد نے پوسٹس کیں، ایکس اور فیس بک اکائونٹ کے حوالے سے تفتیش کرنی ہے۔ایف آئی اے حکام نے کہا کہ وحید مراد کا موبائل بھی ریکور کرنا ہے، وحید مراد کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ وحید مراد صحافی ہیں ان کا ریمانڈ کیوں چاہئے، وکیل حادی علی چٹھہ نے کہا کہ صحافت اس ملک میں جرم بن چکا ہے۔وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ کیا ایف آئی نے پہلے وحید مراد کو نوٹس جاری کیا تھا، وکیل حادی علی چٹھہ نے کہا کہ جرم ہوا ہی نہیں تو عدالت ڈسچارج بھی کرسکتی ہے اور جوڈیشل بھی کر سکتی ہے، صحافیوں کو حراساں کرنے کیلئے گرفتار کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے صحافی وحید مراد کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ صحافی وحید مراد کے اہل خانہ کے مطابق، منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں واقع ان کے گھر سے کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد نے اغوا کر لیا تھا۔صحافی وحید مراد کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔وحید مراد کی ساس عابدہ نواز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ کراچی کمپنی تھانے میں درخواست دی لیکن اس کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہوا، مغوی کو فوری بازیاب کرانے کا حکم دیا جائے۔
وحید مراد کی اہلیہ شنزا نواز نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ رات دو بجے کے قریب گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ متعدد نقاب پوش نامعلوم افراد آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا اور میرے شوہر کو کہنے لگے کہ آپ افغان ہیں، دروازہ کھولیں۔ اس دوران شور سے میری والدہ اٹھ گئیں۔ شنزا کے مطابق ان کی والدہ علاج کے سلسلے میں پاکستان آئی ہوئی ہیں اور ان کے گھر پر مقیم ہیں جبکہ وہ اپنے خاندان کے پاس کینیڈا میں ہیں۔ میرے شوہر نے کہا کہ کیا آپ کے ساتھ خاتون پولیس اہلکار ہیں کیونکہ ہمارے گھر میں والدہ ہیں۔نامعلوم افراد نے کہا کہ آپ دروازہ کھولیں، ورنہ دروازہ توڑ کر اندر آ جائیں گے۔ جس پر وحید نے کہا کہ وہ افغانی نہیں ہیں۔ وحید نے دروازے کے نیچے سے ہی شناختی کارڈ سرکا دیا تاکہ انہیں بتائیں کہ وہ افغانی نہیں ہیں۔صحافی وحید کی خوشدامن نے بتایا کہ ان افراد نے دروازہ توڑا اور کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد وحید کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ یہ افراد ایک پولیس کی گاڑی اور دو ویگو ڈالوں میں آئے تھے۔
ان سے اور وحید سے ان کا موبائل فون چھین لیا گیا، جس کے بعد انہیں باہر گاڑی میں بٹھایا اور لے کر چلے گئے جبکہ ان میں سے کچھ افراد واپس گھر میں آئے اور اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھا کر لے گئے۔انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو متعدد مرتبہ کال کی گئی جس کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ وحید کے دوست تھانے میں موجود ہیں اور دو گھنٹے گزرنے کے بعد کچا پرچا کاٹا گیا ہے۔جس وقت وحید مراد کو ان کے گھر سے گاڑی میں بٹھایا جا رہا تھا تو ان کے دفتر کے ایک ساتھی ثوبان راجہ یہ واقعہ دیکھ رہے تھے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر شئیر کی گئی ویڈیو میں ثوبان نے بتایا کہ انہیں جیسے ہی اس واقعے کا پتہ چلا تو وہ فورا وحید کے گھر کے باہر پہنچ گئے اور واقعے کی ویڈیوز ریکارڈ کرنے لگے۔بعد ازاں جب گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں تو ثوبان نے ان کا پیچھا کیا۔ نامعلوم افراد کو معلوم ہونے پر ان کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری گئی اور بعد ازاں ان کے موبائل فون چھین کر ان پر تشدد شروع ہو گیا۔