پاکستان میں تفرقہ انگیز ایجنڈوں کے خلاف قومی اتحاد ناگزیر : تحریر محمد محسن اقبال


پاکستان طویل عرصے سے اندرونی اور بیرونی دشمن عناصر کی سازشوں کا شکار رہا ہے جو اس کی یکجہتی کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ 1971 کا تلخ سبق ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کس طرح اندرونی اختلافات کو بیرونی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سیاسی بدانتظامی، معاشی ناانصافی اور منظم پروپیگنڈے نے دونوں حصوں کے درمیان دراڑیں پیدا کیں۔ آج کئی دہائیوں بعد، اس المناک واقعے میں ملوث افراد خود بھی اپنی سازشوں کا اعتراف کر چکے ہیں، لیکن ان اعترافات کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ نقصان تو ہو چکا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، “اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔” ہمیں ماضی پر نوحہ کناں ہونے کے بجائے سبق سیکھنا ہوگا تاکہ تاریخ خود کو نہ دہرائے۔

آج وہی سازشی کھیل ایک بار پھر کھیلا جا رہا ہے، اور اس بار ہدف بلوچستان ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مگر کم آبادی والا صوبہ، بلوچستان اپنی قدرتی دولت، گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ، اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ سے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، اندرونی اور بیرونی عناصر اس کے عوام کی جائز شکایات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور صوبائی و نسلی تعصبات کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے۔

اس مذموم سازش کا سب سے بھیانک پہلو دہشت گردی کے وہ واقعات ہیں جہاں معصوم مسافروں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ حملے نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جن کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا، مختلف لسانی و علاقائی گروہوں کے درمیان خلیج پیدا کرنا اور پاکستان کی یکجہتی کو کمزور کرنا ہے۔ یہ وہی ہتھکنڈے ہیں جو ماضی میں استعمال کیے گئے تھے، جب مخصوص گروہوں کو نشانہ بنا کر انہیں ریاست سے بیگانہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

یہ دشمن عناصر کئی محاذوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ پرانے زخموں کو کریدتے ہیں، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹے بیانیے پھیلاتے ہیں۔ آج کے دور میں، جہاں ڈیجیٹل میڈیا بے پناہ اثر و رسوخ رکھتا ہے، ایک من گھڑت خبر پورے ملک میں اشتعال پیدا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن غلط معلومات کے پھیلاؤ میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ پاکستانیوں کو آپس میں لڑایا جا سکے۔

ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاست اور عوام دونوں کو متحرک ہونا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا۔ سب سے پہلے، بلوچستان اور دیگر پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کو مزید فروغ دینا ضروری ہے۔ گو کہ گزشتہ برسوں میں سی پیک جیسے منصوبوں کے تحت کچھ ترقی ہوئی ہے، لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی ڈھانچے، تعلیم، اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے سے مقامی لوگوں کو احساس ہوگا کہ وہ بھی قومی ترقی کا حصہ ہیں۔

سیاسی شمولیت بھی یکجہتی کے لیے بےحد ضروری ہے۔ بلوچستان کے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دی جانی چاہیے۔ سول سروس، فوج، اور سفارتی عہدوں پر بلوچستان کے باصلاحیت افراد کی تعیناتی اس تاثر کو کمزور کرے گی کہ صوبے کو قومی دھارے سے الگ رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح، بین الصوبائی تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کا انتظام کیا جانا چاہیے تاکہ عوام کے درمیان غلط فہمیوں کو کم کیا جا سکے اور باہمی ربط کو مضبوط کیا جا سکے۔

میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ اس وقت پاکستان مخالف عناصر پروپیگنڈے کے ذریعے ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا مثبت بیانیے کو فروغ دے، ملک کے مختلف صوبوں کے درمیان یکجہتی کی کہانیاں اجاگر کرے اور علاقائی بنیادوں پر منافرت پھیلانے والے عناصر کو بے نقاب کرے۔

سیکیورٹی کے حوالے سے بھی فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ شناختی کارڈ دیکھ کر معصوم شہریوں کو قتل کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی بحالی اور قومی دھارے میں شمولیت پر بھی کام کرنا ہوگا جو شدت پسند نظریات کے زیر اثر آ چکے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار نہ بنیں۔

پاکستان کی اصل طاقت اس کی وحدت میں ہے۔ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر ہم متحد رہے تو اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، اسی لیے وہ مختلف صوبوں اور برادریوں کو آپس میں لڑانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ لیکن یہ سازشیں اسی وقت کامیاب ہوں گی جب ہم خود اپنے درمیان تفریق ڈالنے کی اجازت دیں گے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان صرف پنجابی، سندھی، بلوچ، یا پشتون کا نہیں، بلکہ ہم سب کا مشترکہ گھر ہے۔ ہمارے شہداء کی قربانیاں، ہمارے قومی ہیروز کی خدمات، اور ہمارے عوام کی جدو جہد اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اس نازک موڑ پر ہمیں غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی قومی یکجہتی کا دفاع کریں، اختلافات کو ختم کریں، اور اپنی سرزمین پر کسی اور سانحے کو جنم لینے سے روکیں۔ ہمیں متحد ہو کر دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانا ہوگا، کیونکہ اب ہم کسی اور نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔