عید بلا شبہ خوشیوں کا تہوار ہے، روزوں کے بعد شکرانے اور مسرت کے اظہار کا دن۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خاندان اکٹھے ہوتے ہیں، گھروں میں قہقہے گونجتے ہیں اور محبت بھرے پیغاموں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ مگر ان خوشیوں بھرے لمحات میں کچھ ایسے گھر بھی ہیں جہاں ہنسی کی جگہ خاموشی نے لے لی ہے، جہاں خوشیوں کی بجائے یادیں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ یہ وہ گھر ہیں جہاں ان لوگوں کے پیارے نہیں لوٹتے جنہوں نے اس وطن کے دفاع کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں، وہ مائیں، باپ، بیویاں اور بچے جن کے دل میں خوشی کے بجائے ایک ایسا خلا ہے جسے کوئی بھر نہیں سکتا۔
ان شہداء کے گھروں میں عید کی خوشیاں ان کی عدم موجودگی کے کرب میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ ان کے یونیفارم، میڈلز اور دیگر اشیاء ان کمروں میں موجود ہوتی ہیں، جو ہر سال عید پر زخموں کو تازہ کر دیتی ہیں۔ وہ مائیں جو کبھی اپنے بیٹوں کے لیے خاص پکوان تیار کرتی تھیں، آج آنسوؤں کے ساتھ کھانے تیار کرتی ہیں۔ وہ باپ جو کبھی اپنے بیٹوں کو سینے سے لگاتے تھے، آج خاموشی سے ان کی یاد میں ڈوبے رہتے ہیں۔ وہ بیویاں جو عید کے دن اپنے شوہروں کی آمد کی منتظر ہوتی تھیں، آج ان کی غیر موجودگی کے احساس کے ساتھ جیتی ہیں۔ وہ ننھے معصوم بچے جو اپنے والد کے تحفے کا انتظار کرتے تھے، ابھی اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے والد نے سب سے بڑی قربانی دے دی ہے—اپنی جان، اس ملک کی سلامتی کے لیے۔
اس قربانی کی ایک روشن مثال کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کی ہے، جنہوں نے کارگل جنگ میں بے مثال بہادری دکھاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی والدہ، اگرچہ ان کے فراق میں بے حد غمزدہ رہیں، مگر ہمیشہ فخر کے ساتھ کہتی تھیں
“میرا بیٹا صرف میرا نہیں تھا، وہ پوری قوم کا بیٹا تھا۔ اس کی قربانی میرا نقصان نہیں بلکہ میرے لیے ایک اعزاز ہے۔”
یہی احساس ان تمام والدین، بیویوں اور بچوں کے دلوں میں بھی ہے، جن کے پیارے اس ملک پر قربان ہو گئے۔
اسی طرح، اعتزاز حسن کا واقعہ بھی ایک مثال ہے۔ وہ نوجوان جس نے 6 جنوری 2014 کو ہنگو میں اپنی جان قربان کر کے ایک خودکش حملہ آور کو اسکول میں داخل ہونے سے روکا اور سینکڑوں بچوں کی زندگیاں بچا لیں۔ ان کے والد، مجاہد علی، اکثر کہا کرتے ہیں
“میرے بیٹے نے سینکڑوں زندگیاں بچائیں، مگر ہمارے گھر میں جو خلا چھوڑ گیا، وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔”
یہ محض کہانیاں نہیں بلکہ ایسی حقیقتیں ہیں جو ہمیں ان عظیم قربانیوں کی قیمت کا احساس دلاتی ہیں۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قربان ہو جاتے ہیں، وہ حقیقت میں مرتے نہیں بلکہ ایک ابدی زندگی پاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے
“جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پا رہے ہیں۔”
(سورہ آلِ عمران 3:169)
یہ آیت ہمیں یقین دلاتی ہے کہ شہداء کی زندگی ختم نہیں ہوئی، بلکہ وہ اللہ کے ہاں عزت و اکرام کے ساتھ موجود ہیں۔ مگر ان کے اہل خانہ کے لیے یہ جدائی ایک روزانہ کا امتحان ہے، جو عید کے موقع پر اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی شہادت کے مرتبے کو بارہا بیان فرمایا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے فرمایا
شہید کو چھ انعامات ملتے ہیں: اسے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی بخش دیا جاتا ہے، اسے جنت میں اس کا مقام دکھایا جاتا ہے، اسے قبر کے عذاب سے محفوظ رکھا جاتا ہے، وہ قیامت کے دن کے خوف سے بے خوف ہو جاتا ہے، اسے عزت کا تاج پہنایا جاتا ہے، اور اسے اپنے ستر رشتہ داروں کی شفاعت کا حق دیا جاتا ہے۔
(ترمذی)
یہ حدیث ہمیں نہ صرف شہداء کے بلند مقام کا احساس دلاتی ہے بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ ہمیں ان کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ یہ قربانی نہ صرف شہداء کا امتحان ہوتی ہے بلکہ ان کے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے بھی ایک آزمائش بن جاتی ہے۔
ہم ان کی بے لوث قربانیوں کا قرض کبھی نہیں اتار سکتے۔ مگر ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے خاندان خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ عید کی اصل خوشی صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ خوشی بانٹنے میں ہے، خاص طور پر ان کے ساتھ جو غم میں مبتلا ہوں۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا
لوگوں میں سب سے محبوب وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو خوش کر دیا جائے، اس کی تکلیف کو دور کر دیا جائے، اس کا قرض اتار دیا جائے، یا اس کی بھوک مٹا دی جائے۔
(طبرانی)
یہ حدیث ہمارے لیے ایک رہنما اصول ہے کہ ہمیں عید کے دن کس طرح کا رویہ اپنانا چاہیے۔ ہمیں شہداء کے اہل خانہ سے ملنا چاہیے، انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے، اور یہ یقین دلانا چاہیے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ایک چھوٹا سا نیک عمل، ایک محبت بھرا پیغام، یا ایک سادہ سا تحفہ بھی ان کے دلوں میں امید کی روشنی پیدا کر سکتا ہے۔
جب ہم عید اپنے پیاروں کے ساتھ منا رہے ہوں، تو ایک لمحہ نکال کر ان عظیم قربانیوں کے بارے میں ضرور سوچیں جن کی بدولت ہم آج امن میں ہیں۔ ہمیں ان کے اہل خانہ کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ان کا نقصان صرف ان کا نہیں، بلکہ ہم سب کا ہے، اور ان کا دکھ بھی ہم سب کا دکھ ہونا چاہیے۔ اللہ شہداء کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر و ہمت دے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ عید نہ صرف خوشیوں کا تہوار ہو، بلکہ ایک ایسا موقع بھی ہو جب ہم اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو یاد کریں اور ان خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہوں جنہوں نے اپنے پیارے اس ملک کے لیے قربان کر دیے۔