آج کی اسلامی دنیا پر نظر ڈالیں تو شاہد ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جہاں پر حقیقی معنوں میں جمہوریت کا نظام رائج ہو مشرق وسطیٰ، سنٹرل ایشیا، افریقہ کے مسلمان ممالک میں بادشاہتیں قائم ہیں مشرق بعید، پاکستان، ترکی بنگلہ دیش وغیرہ میں کنٹرولڈ جمہوریت ہے ایران اور افغانستان میں تھیو کریسی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلامی ممالک میں حکمرانوں کے کاسہ لیس دانشور عوام کو درس دیتے ہیں کہ خدا جس کو چاہے حکمران بنا دے، یہ اس کی مرضی ہے لہذا عوام پر حاکم کی اطاعت فرض ہے کہی بدبخت آج بھی یزید اور اس جیسے ظالم حکمرانوں کو خدا کا مقرر کردہ جائز خلیفہ قرار دیتے ہیں ہمارے ہاں اکثر آمریت کے حامی ایوب خان کے بی ڈی سسٹم، یحییٰ خان کو امیرالمومنین، ضیاء کو اسلام کا مجاہد تسلیم کرتے ہیں جمہوریت کے مخالفین اکثر اقبال کے اس شعر کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں جمہوریت کو ہی اسلام سے خارج کر دیتے ہیں
جمہوریت اک طرز حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے ہیں
حالانکہ اقبال بنیادی طور پر جمہوریت کے مخالف نہیں تھے اقبال شورائیت کو اسلامی جمہوریت کی اساس تصور کرتے تھے
شورائیت ایک اہم قرآنی تصور ہے قرآن پاک عاملین کو ان لوگوں سے مشاورت کرنے کی ہدایت کرتا ہے جن پر وہ حکمرانی کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کبھی بھی حکمرانوں کے انتخاب میں عوام سے مشاورت نہیں کی جاتی ہے انہیں جاہل اور گنوار سمجھتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کو قطعاً اہمیت نہیں دی جاتی ہے عوام میں پاپولر لیڈر کا مقدر جیلیں اور پھانسی ہوتی ہے اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اسلام میں عوام سے مشاورت بنیادی طور پر جمہوریت کی اساس ہے شورائی نظام کا مقصد محض یہ نہیں ہے کہ معاشرے کے صرف اعلی طبقے کے افراد کی رائے کو اہمیت دی جائے بلکہ اس کے وسیع تر مشاورت (عوامی مینڈیٹ) کو مانا جائے ایوب خان کا بی ڈی سسٹم، ضیاء اور مشرف کے ریفرنڈم اور فارم 47 پر حکومت بنا لینا نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی اسلام کی شورائیت کا نظام ہے اسلامی ممالک کی اکثریت بشمول پاکستان میں تمام نظام حکومت کسی طور پر بھی اسلامی شورائیت کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں نبی کریم محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کا کہنا ہے “میری امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو گی” ____یہ حدیث اجتماعی عوامی رائے کو ہی خدا کی ترجیح ظاہر کرتی ہے اسی لیے تو پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ حاکمیت اعلیٰ خدا کی ہے جبکہ حاکمیت عوام کی ہے ____لہذا عوام کے حقیقی منتخب نمائندے ہی اللہ کی حدود میں رہتے ہوئے ریاستی امور سرانجام دینے کے جائز حقدار ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں ان کے حقوق کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور کمزور طبقات کو طاقتوروں کے استحصال سے بچائیں کیونکہ جمہوریت چاہے اسلامی ہو یا مغربی __یہ تو عوام کی مرضی کے اظہار کا نام ہے
اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں اسلام اور جمہوریت محض ایک دوسرے سے موافقت ہی نہیں رکھتے ہیں بلک اس میں کثرتیت (pluralism) اور عدل و انصاف کا تناسب دیگر مذاہب کی نسبت بہت زیادہ ہے ایک مسلم ریاست میں آزادی رائے اور عوام کی اکثریت سے حکومت اور قانون سازی مسلمہ حق تسلیم کیا جاتا ہے اسلام ایک بے لچک سیاسی نظام کا علمبردار نہیں ہے اسلامی شریعت بدلتے وقتوں سے مطابقت رکھنے والے نئے سماجی اور سیاسی رویوں (عمرانی معاہدہ) پر عوامی اتفاق رائے حاصل کر سکتی ہے یہ ایک ایسا مذہب ہے جسے مشاورت (شوری) اور اتفاق رائے (اجماع) کے جمہوری اصولوں پر تعمیر کیا گیا ہے جسکا منتہا آزادانہ عوامی رائے (اجتہاد) ہے اسی طرز عمل سے مسلمانوں میں اخلاقیات کی بنیاد پر اخوت اور بھائی چارہ کا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جو اسلام کی بنیاد ہے اسی بنیاد پر اسلام ایک روادار مذہب کہلائے گا جو تمام بنی نوع انسان کے لیے مثبت قوت عمل کی حیثیت اختیار کر لے گا اسلام میں عدم مساوات کو ناانصافی کی بدترین شکل قرار دیا گیا ہے اسی لیے یہ اپنے ماننے والوں کو ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی تلقین کرتا ہے اسلام کسی صورت میں بھی تشدد، جبر ،آمریت اور بے رحمی کی اجازت نہیں دیتا ہے اسلام ہمیشہ سے اعتدال پسندی، ثقافت، معاشرتی رنگا رنگی، عدل و انصاف، تنوع اور جدت طرازی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب میں ایسی روایات نہیں تھیں مگر بدقسمتی سے مغرب نے اسلام کی کثرتیت کے اس ماڈل کو اپنا لیا ہے جسکی مثال ریاست مدینہ نے قائم کی تھی اور ہم نے مغرب کے سیاہ دور کی بے لچک چرچ کی روایات کو اپنا لیا ہے جہاں ہر روشن خیال مفکر اور سائنس دان کو جادوگر قرار دے کر یاتو آگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا یا سخت سزائیں دی جاتی تھیں اگر ہم اسلام اور ارفع جمہوری روایات پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ان تین باتوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا ہو گا
1_سربراہ حکومت کا انتخاب ہر حال میں عوام کی صوابدید ہونا چاہیے
2_حکمران اور اس کی حکومت کے ریاستی ادارے صرف اور صرف عوام کی تابعداری کریں کسی خاندان یا شخصیت کو حکمرانی پر اجارہ داری حاصل نہیں ہونی چاہیے
_انتخابات ہمیشہ دھونس اور دھاندلی سے پاک ہوں
آج حکمرانوں کے تمام کاسہ لیسوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں آمریت ایک ناقابل قبول شے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم ریاست میں دہشت گردی، خود کش حملوں اور بے گناہوں پر ظلم جبر اور تشدد کابھی کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ اسلام کے معنیٰ ہی امن اور سلامتی ہیں جو اس کو سبوتاژ کرتا ہے وہ مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں ہے
