آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس4 فروری 1940
کو دہلی میں منعقد ہوا اس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اجلاس ٢٣مارچ کو لاہور میں ہوگا اس تاریخ ساز اجلاس کے انتظامات کے لیے مجلس عاملہ قائم کی گئی جس کے سربراہ شاہ نواز ممدوٹ اور سیکرٹری میاں بشیر احمد کو مقرر کیا گیا اس اجلاس سے چار دن پہلے پنجاب میں یونینست حکومت نے خاکسار جماعت کے 35 کارکنوں کو فائرنگ کر کے ھلاک کر دیا تھا جس کی وجہ سے لاہور میں سخت کشیدگی کی فضا تھی اس وجہ سے قائداعظم نے اپنے استقبال سے منع کر دیا ٢٢مارچ کو مسلم لیگ کا اجلاس شروع ہوا تو قائد اعظم نے تاریخ ساز خطبہ صدارت پیش کیا “مسلمان ہندوستان میں بحثیت تاجر، فاتح اور مبلغ آئے اور اپنی تہذیب و تمدن ساتھ لائے – آج ہندوستان میں دس کڑور مسلمان آباد ہیں ساری دنیا میں اتنی زیادہ مسلم آبادی کا یکجا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی تہذیب، ثقافت، لٹریچر، زبان، آرٹ، تمدن، رسوم ورواج، قوانین، آئین، مذہب، عقائد، تاریخ، کیلنڈر غرضیکہ ہر شے دوسری قوموں سے مختلف ہے ہم بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی ایک الگ قوم ہیں اگر برطانوی حکومت اس ملک کو امن اور خوشی سے ہمکنار کرنا چاہتی ہے تو اسکو ایک ہی راستہ اپنانا ہو گا کہ برضعیر کو دو خود مختار ریاست میں تقسیم کر دے”
دوقومی نظریہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے قائد نے فرمایا” ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ آپس میں سماجی میل جول نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی آپس میں اکٹھے کھانا کھاتے ہیں اور شادی بیاہ کرتے ہیں _درحقیقت دونوں قوموں کے نظریات متضاد تصورات اور خیالات پر مبنی ہیں دونوں قوموں کی تاریخ، ہیروز اور عقائد ایک دوسرے سے مختلف ہیں ایسے میں دونوں قوموں کا ایک ہی حکومتی بندوبست کے تحت اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے جس میں ایک اقلیت اور دوسری اکثریت میں ہو ___اگر ایسا زبردستی کیا گیا تو اس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی بے چینی کی صورت میں نمودار ہو گا اور ایسی حکومت کے لیے وضع کردہ نظام لازماً تباہی اور بربادی کا شکار ہو گا ”
٢٣مارچ کو اجلاس کے اختتام پر تاریخ ساز قرارداد پیش کی گئی جو متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے پیش کی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ اس وقت تک ہندوستان میں کوئی بھی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہو گا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہو گا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو _وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کر دی جائیں اس تاریخی قرارداد کی تائید یو پی مسلم لیگ کے رہنما چوہدری خلیق الزمان، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگزیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی اور تمام شرکاء اجلاس نے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر متفقہ طور پر اس قرارداد کی منظوری دے دی اپریل 1941 میں مدارس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا اور اس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ خود مختاری کی تحریک کی بنیاد رکھی تاہم کانگریسی لیڈروں، ہندو پریس اور شرپسند مسلمانوں کے ایک گروہ نے اس پر خوب واویلا شروع کر دیا اور اسے پاکستان کا نام دے کر طوفان کھڑا کر دیا حالانکہ اس وقت تک نہ تو مسلم لیگ نے ان علاقوں کی نشاندہی کی تھی جہاں علیحدہ مسلم مملکت قائم کی جانی تھی اور نہ ہی قرارداد لاہور کے محرک اور
مؤیدین نے لفظ “پاکستان” کا ذکر کیا تھا تاپم بیگم محمد علی جوہر نے ضرور اس کو تقسیم ہند کا ریزولیوشن کہتے ہوئے قرار داد پاکستان کا نام دیا تھا
ہندو پریس نے پاکستان کو مجذوب کی بڑ قرار دیتے ہوئے اسے ناقابل عمل منصوبہ قرار دیا گاندھی نے کہا “ہندوستان ہماری ماتا ہے ہم اپنی ماتا کے ٹکرے نہیں ہونے دیں گے” اس پر قائداعظم نے 26 مئ 1940 کو بڑے اعتماد سے گاندھی کو جواب دیا “قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے ٹکرے کیے ہوئے ہیں ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی موجود ہیں، نہ معلوم اس کے متعلق اتنا واویلا کیوں کیا جاتا ہے وہ ملک ہے کہاں ___جس کے ٹکرے ٹکرے کیے جائیں گے؟ اور وہ قوم جس کی قومیت فنا کی جانے والی ہے ”
قائد کے یہ الفاظ کانگریسی رہنماؤں اور پاکستان مخالف مولویوں پر تازیانہ بن کر برسے مگر ڈاکٹر امبید جیسے غیر جانبدار شخصیات نے مطالبہ پاکستان پر اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیا اور پاکستان کے قیام کی حمایت کی اس قرار داد کی برکت سے سات سال بعد پاکستان کا معجزہ نمودار ہوا مگر لاکھوں مسلمانوں کو جان و مال کی قربانی دینی پڑی، ہزاروں ماؤں بہنوں کی عصمتیں پامال ہوئیں پنجاب میں لاکھوں مسلمان خون اور آگ کے دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے مگر آج بدقسمتی سے پاکستان کے لیے جس فلاحی ریاست کا خواب مسلمانوں نے دیکھا تھا وہ کب کا ہویدا ہو چکا ہے 24 سال بعد ہی آدھا پاکستان رہ گیا اور آج اس کٹھے پٹھے پاکستان کو بھی لہو لہان کر دیا گیا ہے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نکل کر عام پاکستانی جاگیرداروں، سرمایہ کاروں، سرداروں اور براؤن صاحبان کا غلام بن گیا ہے نہ تو پاکستانیوں کی اکثریت کو حقیقی آزادی ملی اور نہ ہی ارفع جمہوریت جسکا تصور قائد اور اقبال نے دیا تھا _معاشی عدل و انصاف، سماجی مساوات، میرٹ اور انسانی حقوق اور آئین کی حاکمیت جیسے تصورات ہم سے کوسوں دور ہیں بقول فیض احمد فیض
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں