جین گڈال ( Jane Goodall)مشہور برطانوی دانشور، مصنف اور زوالوجسٹ ہیں ۔ اِس وقت اُن کی عمر 90برس ہے ۔ وہ کہتی ہیں:’’ دِلوں اور ذہنوں میں تبدیلی کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب دو مخالف اور متحارب فریق ایک دوسرے کی بات سُننے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ شنیدن کے اِس عمل کے بعد ہی باہمی مکالمہ شروع ہوتا ہے ۔
یہ مکالمہ ایسے فریقین میں ہوتا ہے جو یقین کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ مخالف فریق کا ہر عمل غلط ہے ۔ مکالمہ ، مصافحہ اور پھر معانقہ دلوں اور ذہنوں پر جمی تعصب کی برف پگھلا دیتے ہیں۔ مکالمے کی اصل رُوح صبر ہے۔‘‘کیسی خوب بات کہی ہے !ہلاکت خیز جنگوں کا آخری فیصلہ بھی تو مکالمے کی میز پر ہی ہوتا ہے ۔ پھر کیوں نہ ہم ، ہماری سیاسی جماعتیں اور ادارے اپنے اپنے متنازع معاملات مذاکرات اور مکالمے سے طے کریں؟ مکالمے کی بساط بچھانے کی بازگشت ہر طرف سنائی دے رہی ہے ۔حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے پی بھی کہہ رہے ہیں کہ مکالمے اور مذاکرے ہی سے اُن کے صوبے میں (ٹی ٹی پی کے ہاتھوں) پھیلی دہشت گردی کی آگ ٹھنڈی ہو سکتی ہے۔
جناب علی امین گنڈا پور کے زندانی لیڈر تو شہباز حکومت سے مکالمہ اور مصافحہ کرنے پر تیار نہیں ہیں ، لیکن علی امین صاحب خود مغربی سرحد پار دہشت گرد عناصر سے مکالمہ کی بات کررہے ہیں ۔ موصوف نے 21مارچ2025کو اسلام آباد میں سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک نشست میں کہا:’’ مجھے ٹاسک دیں ۔مَیں افغان طالبان سے مکالمہ اور مذاکرات کر لیتا ہُوں ۔
افغان طالبان کو مکالمے کی میز پر بٹھائیں ۔ امن کے لیے اُن سے مذاکرات ہی واحد حل ہیں۔ تمام قبائلی ایجنسیوں کے قبائلی مشران سے مذاکرات کا پلان بنا کر ہم نے پاکستان کے دفترِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کو بھیجا ، مگر کسی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ مجھے یقین ہے کہ قبائلی مشران سے افغان طالبان مکالمے اور مذاکرے سے انکار نہیں کر سکتے ۔مجھے اگر یہ ٹاسک دیا جائے تو مَیں کل ہی اخونزادہ ( افغان طالبان کے مرکزی امیر) کے ساتھ بیٹھا نظر آؤں گا۔ مجھے (افغانستان) بھجوائیں ، پھر(امن کی) بات بنے گی ۔‘‘ جناب علی امین گنڈا پور نے اتنا بڑا دعویٰ کر دیا ہے تو ہمارے اصل فیصلہ سازوں کو انھیں آزما ہی لینا چاہیے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور مقتدر افغان طالبان پر اعتبار کیسے اور کیونکر کیا جائے ؟ پاکستان میں یہ تاثر گہرا ہے کہ ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے ، دونوں نے رَل مل کر پاکستان کو دغا دیا ہے ۔ قیامِ امن کی خاطر مقتدر افغان طالبان سے مکالمہ اور مذاکرات کرنے حضرت مولانا فضل الرحمن بھی افغانستان گئے تھے ، مگر نتیجہ صفر نکلا ۔ علی امین گنڈا پور مگر اِس بارے تبصرہ کرتے ہُوئے مبینہ طور پر کہتے ہیں: ’’ (یہ مکالمہ اس لیے بے ثمر رہا تھا کہ) مولانا فضل الرحمن سے افغان طالبان کی نچلی سطح کی قیادت کا رابطہ ہُوا تھا۔‘‘ تو اَب علی امین گنڈا پور کو آزما لینا چاہیے کہ وہ افغان طالبان کی ’’اعلیٰ سطح‘‘ قیادت سے مکالمہ کرکے دیکھ لیں ۔
حالات بہر حال تشویشناک ہیں۔اس لیے قیامِ امن کے لیے(ناقابلِ اعتبار ٹی ٹی اے سے) مکالمے کا رسک لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ 18مارچ 2025کو جب بلوچستان کی دگرگوں صورتحال پر اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کا اعلیٰ ترین اجلاس ہو رہا تھا، ہمارے کئی اخبارات بلوچستان بارے (احتیاط کا دامن ملحوظِ خاطر رکھتے ہُوئے) تشویشناک حقائق سامنے رکھ رہے تھے ۔
مثال کے طور پر ایک انگریزی معاصر نے ’’ٹائم لائن‘‘ کے تحت بلوچستان میں وقوع پذیرہونے والے دہشت گردی کے سانحات کی ایک تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے ۔اِس رپورٹ کے مطابق: 30 جنوری2024 تا3مارچ2025 بلوچستان میں دہشت گردی کے خونریز اور خونی سانحات ، واقعات میں 119فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔ اِس دوران بلوچستان میں دہشت گردوں اور انسانیت و پاکستان دشمنوں نے 225 بے گناہ افراد کی جانیں لے لیں ۔ بلوچستان میں بروئے کار دو معروف دہشت گرد تنظیموں (بی ایل اے اور بی ایل ایف) نے، مبینہ طور پر، یہ خونریزی کی ہے۔ کوئی بھی غیر ملکی محقق اور اخبار نویس اگر مذکورہ رپورٹ کا مطالعہ کرتا ہے تو بلوچستان بارے اُس کا پہلا تاثر یہی ہوگا : بلوچستان کے حالات نہائت خراب ہیں !
بلوچستان کے اِنہی خراب حالات کے سدھار کے لیے18مارچ کو اسلام آباد میں ہمارے کئی بڑوں کی بیٹھک ہُوئی ۔ جب یہ ’’بیٹھک‘‘ ہو رہی تھی ، ملکی میڈیا میں یہ بھی وچار کیا جارہا تھا کہ آتشناک بلوچستان کے ’’ناراض عناصر‘‘ کو منایا جائے تو کیسے ؟ انگریزی معاصر کی ایک مشہور پاکستانی دانشور نے اپنے مفصل تجزیئے میں مشورہ دیا ہے کہ مبینہ طور پر غیروں کے ہاتھوں چڑھے ناراض بلوچ عناصر سے براہِ راست مکالمہ کیا جائے ۔
موصوفہ نے بطورِ دلیل لکھا :’’ اگر پاکستان کی دشمن اور کئی پاکستانیوں کی قاتل دہشت گرد تنظیم ، ٹی ٹی پی، سے ریاستِ پاکستان براہِ راست مکالمات و مذاکرات کر سکتی ہے تو ناراض بلوچ عناصر سے کیوں نہیں ؟ہمارے ایک آمر کے دَور میں ٹی ٹی پی کے لیڈر، نیک محمد، کے گلے میں ہار ڈالے گئے اور صوفی محمد سے بھی مصافحہ اور معانقہ کیا گیا ۔
یہ اقدامات اس لیے کیے گئے تاکہ انھیں منا کر اصل قومی دھارے میں لایا جائے ۔ تو پھر بلوچ عناصر سے براہِ راست بات چیت میں کیا امر مانع ہے؟۔‘‘یہ منطق و دلیل شاید درست ہی ہو مگر سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے چند افراد سے مذاکرات اور مکالمے کا کیا کوئی مثبت نتیجہ بھی نکلا؟ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد آج بھی پاکستان و پاکستانیوں کے خلاف ہتھیار اُٹھائے ہُوئے ہیں ۔ تو کیا یہی راستہ پھر سے اختیار کرنے پر کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی اُمید کی جا سکتی ہے؟ ؛چنانچہ کسی دانشمند کا کہنا ہے کہ : دُنیا بھر کا اصول یہ ہے کہ جہاں کہیں دہشت گردی اور مرکزِ گریز قوتیں سر اُٹھاتی ہیں ، اُن کا سر کچلنے کے لیے مکالمے اور تلوار کو یکساں طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے، اِسی کے آمیزے سے سلامتی اور امن کا راستہ نکلتا ہے ۔
بلوچستان میں قیامِ امن اور ناراضوں کو گلے لگانا ہی ہمارا اجتماعی کرداربن جانا چاہیے ؟ مکالمے ، مصافحے اور معانقے کی بساط بچھانے کا وقت ہُوا چاہتا ہے ۔ ایک دوسرے پرالزام تراشی کاوقت گزر چکا ہے ۔ مثال کے طور پر گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں ایک خاتون ایم پی اے نے شعلہ فشانی کرتے ہُوئے کہا:’’ بلوچستان کے حالات اس لیے دگرگوں ہیں کیونکہ بلوچستان کے سردار اور اُن کی آل اولادیں امیر سے امیر ترین ہو گئے ہیں اور بلوچستان کے عوام غریب سے غریب ترین ہو گئے ہیں۔‘‘ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر نے مذکورہ خاتون ایم پی اے کا مائیک بند کرکے اگرچہ انھیں مزید بولنے سے روک دیا، مگر کہنا پڑے گا کہ خاتون کی باتیں اتنی بے بنیاد بھی نہیں ہیں ۔ مسئلہ مگر اب ایسی تہمتوں سے آگے نکل چکا ہے ۔
جب18مارچ کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کی بیٹھک ہو رہی تھی ، ایک قومی روزنامہ نے یہ خبر شایع کی کہ ’’بولان ( بلوچستان) میں سرنگوں کی حفاظت کرنے والے لیویز کے اہلکار3ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔‘‘ اگر واقعی صورتحال یہ ہے تو بلوچستان کے عوام کی حفاظت کون کرے گا؟ واضح رہے کہ11مارچ 2025کو جعفر ایکسپریس ٹرین کے اغوا کا سانحہ بھی بلوچستان کی ایک سرنگ ہی میں پیش آیا تھا ۔
سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت سے بلوچستان حکومت کو فراہم کردہ اربوں روپے کس Sink Holeمیں غائب ہو گئے ؟ اور اب 21مارچ2025 کو بلوچستان کے دو علاقوں ( قلات اور نوشکی)میں دہشت گردوں نے 4پولیس اہلکاروں اور4پنجابی محنت کشوں کو بیدردی سے قتل کر دیا ہے۔ کیا ایسے خونی اور خوں آشام قاتلوں سے بھی مکالمہ کیا جائے ؟ ناممکن!21مارچ ہی کو مہرنگ بلوچ کی تنظیم( BYC) نے نام نہاد احتجاج سے کوئٹہ شہر بند کر نے کی ناکام کوشش تو کی لیکن اِس تنظیم نے مذکورہ8بیگناہ افراد کے قتل کی مذمت نہیں کی ۔تو کیا ایسی تنظیموں کے لیے بھی بات چیت کے دروازے کھولے جائیں؟؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس