سندھ ہائی کورٹ میں سمی دین محمد کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف آئینی درخواست دائر کی گئی ہے۔ سمی دین محمد کی چھوٹی بہن مہلب کی جانب سے دائر اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سمی دین محمد انسانی حقوق کی کارکن ہے اور اس کو کئی عالمی ایوارڈ ملے چکے ہیں۔
درخواست کے مطابق اس وقت وہ آئی بی اے کے شعبہ صحافت میں زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریٹری ان کے والد بھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔
درخواست کے مطابق سمی 24 مارچ کو ساڑھے پانچ بجے دیگر کارکنوں کے ساتھ، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کراچی پریس کلب کے قریب پرامن احتجاج کر رہی تھیں۔ تاہم اس مظاہرے کی پرامن نوعیت کے باوجود، سندھ پولیس نے غیر قانونی طور پر مداخلت کی اور زیر حراست کو گرفتار کر لیا۔
درخواست میں بتایا گیا ہے کہ اگلے دن 25 مارچ کو زیر حراست ملزم کو کراچی جنوبی کی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ تاہم سکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے مقدمہ عدالت مجسٹریٹ نہم جنوبی کو منتقل کر دیا گیا، جہاں مجسٹریٹ نے ایک عدالتی حکم کے ذریعے، انھیں دفعہ 63 سی آر پی سی کے تحت بری کر دیا۔
درخواست کے مطابق اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر غیر سنگین جرم پر درج کی گئی تھی جو قانون کے تحت جائز نہیں ہے۔
کیونکہ یہ عدالت کی اجازت کے بغیر سب ہوا اور عدالت کی اجازت کے بغیر غیر سنگین جرم میں گرفتاری بھی نہیں کی جا سکتی۔
مہلب نے اپنی درخواست میں بتایا ہے کہ ان کی بہن کو عدالتی کمپلیکس کے احاطے میں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا، جہاں مجسٹریٹ کی عدالت واقع ہے۔
ان کے مطابق مجسٹریٹ کی جانب سے رہائی کے فوراً بعد ان کی دوبارہ گرفتاری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکام نے عدالتی جانچ پڑتال سے قطع نظر ان کی مسلسل حراست کی پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ایم پی او کے حکم نامے میں پانچ افراد کے نام درج تھے۔ پولیس نے چار دیگر افراد کو رہا کر دیا، جن میں عبد الوہاب بلوچ نامی 60 سالہ شخص بھی شامل تھا جبکہ پولیس نے سمی کے سیاسی پروفائل کی وجہ سے ان کی گرفتاری کو ترجیح دی۔
اس درخواست میں گزارش کی گئی ہے کہ ایم پی او کے حکم نامے کو مسترد کرکے سمی دین محمد کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ جمعرات کو اس درخواست کی سماعت کرے گا۔
بشکریہ : بی بی سی اردو