یہ کتابوں کی دنیا کی کہانی ہے یہ کتب خانوں اور لائبریریوں میں پڑی تہہ در تہہ کتابوں کی دانش کی تلچھٹ ہے۔ یونانی فلاسفروں کی ’’دی ری پبلک‘‘ سے لیکر ول ڈیورانٹ کی ’’تاریخ کے سبق‘‘تک اہل دانش انہی قوموں کی خوشحالی کا ذکر کرتے رہے ہیں جو آزادی اور مساوات کے دو سنہری اصولوں کے تحت آئین بنا کر اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ برصغیر کی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ سرسید احمد خان نے مغل اعظم جلال الدین اکبر کے نظام پراس کے ایک بڑے نورتن ابولفضل کی کتاب آئین اکبری کو نئی شکل دی۔ تقریظ کے لئے کتاب اپنے والد کے دوست اسد اللہ خان غالب کو بھیجی، کتاب پر تقریظ کی جگہ غالب نے فارسی نظم لکھ بھیجی۔ یہ نظم سرسید احمد خان کو دنیا کے جدید آئینوں کا مطالعہ کرنے اور انکی اچھی چیزوں کو اپنانے کا مشورہ دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آج بھی تضادستان کے کتب خانے میں 1973ء کے آئین کی کتاب سب سے اہم، سب کی متفقہ اور اس خطے کے لوگوں کے لئے سب سے قابل قبول اور دل فریب ہے۔ آج کا سارا نظام عدالتیں، حکومتیں، وزارتیں، افسریاں حتیٰ کہ ادارے بھی اسی کے ذریعے سے جنم پذیر ہوئے اور اسی کے ذریعے چل رہے ہیں یہ آئین اگر واقعی چلے تو نہ یہ نرم ہے اور نہ سخت۔ اس آئین پر مکمل عملدرآمد ہوتو سب کو منصفانہ حقوق ملیں کسی صوبے یا کسی قومیت کے ساتھ زیادتی نہ ہو، عدالتیں کسی فرد یا ریاست کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا مداوا کریں، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے کو ادارے اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری کے تحت جواب دیں، اظہار رائے کی آزادی ہو ،حبس، سختی، جبر اور آئینی آزادیوں پر بے جا پابندیاں ختم ہوں تاکہ ریاست کے باشندوں میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ 1973ء کے ترمیم شدہ آئین میں صوبوں کو موثر خود مختاری دی گئی ہے کسی صوبے کے ساتھ زیادتی ہو تو اسے مشترکہ مفادات کونسل میں جانے کا حق حاصل ہے، صوبوں کی سینٹ میں برابر نمائندگی ہے غرضیکہ فرد، صوبوں اور اداروں ہر ایک کو تحفظ حاصل ہے۔ یہ ایک بہترین آئین ہے جو متوازن ہے، نہ اس کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر کوئی ریاست کو للکار سکتا ہے اوراگر واقعی اس آئین کےتحت حقوق دیئے جائیں تو کوئی بھی فرد یا صوبہ اپنے حقوق کی پامالی کا رونا بھی نہیں رو سکتا۔ کتابیں اور کتب خانے کہتے ہیں کہ ریاست نہ نرمی سے چلتی ہے اور نہ سختی سے ، بلکہ یہ توازن اور انصاف سے چلتی ہے۔ ہم نے ضیاءالحق دور میں کوڑوں کی سختی کو دیکھا ہے اور دوسری طرف سول حکومتوں میں نرمی کی وجہ سے لا اینڈ آرڈر کوبگڑتے بھی دیکھا ہے۔ جمہوریت کی کمزوری کی طرح آئین کی کمزوری کابھی واحد علاج یہی ہے کہ آئین کا اطلاق مزید اور موثر کیا جائے جس طرح جمہوریت کی کمزوری کا علاج مزید جمہوریت ہوتا ہے اسی طرح آئین پر عملداری میں کمی ہو تو آئین کا موثر اطلاق ہی اس کا حل ہوتا ہے۔
سرسید احمد خان کو فرسودہ روایات کی پیروی سے ہٹا کر جدید علوم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی طرف مائل کرنے میں اسد اللہ خان غالب کی اس فارسی نظم نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ غالب نے واضح طور پر لکھا کہ صرف مرے ہوئے لوگوں کی عبادت کوئی احسن کام نہیں ہے آنکھ کھولو اور انگلینڈ کے صاحبوں کے کام کو دیکھو۔ غالب نے یہ بھی کہا کہ اب آئین اکبری کو چھوڑیں اور دیکھیں دنیا کے جدید ترین آئین کیسے بنے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشروں نے کیسے ترقی کی ہے۔ کتابوں کی دنیا میں خاموشی ضرور ہے لیکن اس خامشی میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔کتب خانوں اور لائبریریوں میں خاموشی اختیار کرنے کے باوجود مجھے کتابوں کی دنیا میں بار بار یہ سرگوشی سنائی دے رہی ہے کہ دنیا میں قوموں کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ اپنے آئین پر چلنا ہے ۔مجھے حفیظ پیرزادہ کی روح اور پروفیسر غفور کی پرچھائیں نے روک کر کہا کہ اس آئین کےپیچھے صدیوں کافلسفہ اور دانش ہے۔ صوبوں کے درمیان کشمکش کی تاریخ کو مدنظر رکھ کر بنایا جانے والا یہ آئین اسلام اور جمہوریت کا بہترین اور اعلیٰ ترین امتزاج ہے۔لائبریری میں ہی گھومتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو اور مفتی محمود کے ہیولے ابھرے ایک نے کہا ریاست کو معتدل اور متوازن رکھنا،سخت بنایا تو آمرانہ نظام در آئیگا۔ دوسرے ہیولے نے کہاکہ اتنی نرمی بھی نہ کرنا کہ دہشت گردی ہی ملک کا چلن بن جائے۔
اب جبکہ آئین کو بنے ہوئے نصف صدی ہوگئی اس پر عملدرآمد کو بھی کئی دہائیاں گزر گئیں تو کتب خانوں کی سرگوشی یہ کہہ رہی ہے کہ اب اس آئین کو مقدس دستاویز قرار دے کر سکولوں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے، ججوں کو اس کی من مانی تشریحات سے روکا جائے اور آئین کی وہی تشریح کی جائے جو بانیان آئین چاہتے تھے، ان کی نیت، خواہشات اور ارادے بھی محفوظ ہیں، جج صاحبان ان کو پڑھ کر آئین کی تشریح کیا کریں۔
لائبریریوں میں کتابوں سے چھلکتا علم اور تجربہ بتاتا ہے کہ نازک وقت گزارنے کا طریقہ اپنے اصولوں میں تبدیلی سے نہیں ہوتا۔ کتابیں بتاتی ہیں کہ ڈاکوؤں کو مارنے کاطریقہ پولیس مقابلہ نہیں ہے بظاہر پولیس مقابلے سے فوری انصاف مل جاتا ہے مگر یہ وقتی اور غلط حل ہے۔ چاہے جتنا بھی وقت لگ جائے دائمی حل بہرحال نظام انصاف کو بہتر کرنا ہے تاکہ یہ ڈاکو عدالت کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچے۔ اسی طرح پاکستان کے سیاسی نظام،طرز حکمرانی یا پھر امن و امان کی کمزوریوں کا فوری حل تو سختی ہوگا لیکن یہ عارضی حل ہوگا، دائمی حل انصاف پر مبنی موثر طرز حکمرانی اور انٹیلی جنس نظام کی بہتری ہی ہوگا۔ کتابیں اور بولیں تو یہ بتائیں کہ کسی ملک کا لائحہ عمل اس کے آئین کے ذریعہ ہوتا ہے اور دیرپا کامیابی سختی سے ملتی ہے اور نہ نرمی سے ملتی ہے وہ صرف اور صرف آئینی لائحہ عمل سے چلنے سے ملتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ