بلوچستان میں شورش کے دو بنیادی فریق، لیکن عوام لا تعلق، ہیں۔ فریق اول میں چند تربیت یافتہ گروہ ہیں جو چھاپہ مار کارروائیوں سے ریاستی نظام مفلوج کرنے کے درپے ہیں۔ بھارت، پڑوسی اور سمندر پار کے چند ممالک اپنا ہاتھ پیچھے کر لیں تو ان کے پاس چھپنے کو جگہ نہیں ہے۔ چھاپہ مار اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے ساتھ ان گروہوں نے جدید تشہیری وسائل سے بلوچستان کے وسائل اور خود ساختہ استحصال کی منظر کشی کر رکھی ہے، اس سیلاب میں عام اور فہمیدہ بلوچ دونوں بہ نکلے ہیں۔ منفی فکر ذہنوں میں جلد جگہ بنا لیتی ہے۔
ایک کشمیری قوم پرست بولے۔”ہم بجلی پانی بند کر دیں تو پاکستان تاریکی میں ڈوب کر قحط کا شکار ہو جائے گا”. عرض کیا: “دو گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرنا پڑے گی. پھر ہم اپنی شمسی توانائی پیدا کر لیں گے. یہ بتائیے وہ بچی ہوئی بجلی آپ بیچیں گے کسے؟ رہا قحط تو ہم اس سے بھی نمٹ لیں گے۔ یہ بھی بتائیے کہ کل چار ہزار مربع میل آزاد کشمیر کے جھیل بن جانے پر خود آپ لوگ کہاں قیام کریں گے؟ پانی کا کریں گے کیا”؟ یہی سوچ فہمیدہ بلوچ ذہنوں کو آلودہ کر رہی ہے۔ صوبہ یقیناً معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ قوم پرست ان وسائل کا حجم اور مالیت کی یوں منظر کشی کرتے ہیں کہ یہ معدنیات بیچ کر گویا ہر بلوچ مالا مال ہو جائے گا۔
ذہنی آلودگی کا یہ بھیانک حربی انداز بم دھماکوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ 70 کی دہائی میں ڈیرہ غازی خان سے یورینیم دریافت ہوا۔ مالیت یوں بتائی گئی جیسے ہر کوئی مالا مال ہو جائے گا۔ لیکن یورینیم بھٹی تک کیسے پہنچا؟ فرانس سے بات ہو رہی تھی جو یورینیم نکال کر صاف شکل کا 51 فیصد لینا چاہتا تھا۔ معلوم نہیں کن شرائط پر بات طے ہوئی لیکن بلوچ قوم پرست اپنی صنعت کان کنی جاننا چاہیں تو دکی، جمالانگ، لورالائی ہرنائی اور پنجاب و سندھ میں کھیوڑا، پنڈ دادن خان اور ٹھٹھہ کی گینتی بیلچہ والی کانیں دیکھ لیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئلے کی طرح سونا، تانبہ اور دیگر دھاتیں بھی انہی گینتی بیلچوں سے نکال کر وہ راتوں رات امیر ہو جائیں گے۔
پاکستان کا کیا مذکور، یوکرائن ترقی یافتہ ملک ہے۔ ہماری اسٹیل ملز کے انجینیئروں کی تربیت اسی سوویت ملک میں ہوئی تھی۔ اس کے پہلے ایکسین میرے چچا صدیق انجینیئروں کے گروپ یہیں لے جایا کرتے تھے۔ ان کی باتوں اور خطوط سے پتا چلتا تھا کہ یہ ملک کئی اعتبار سے برطانیہ سے آگے ہے۔ آج نہیں 1985 میں 704 ٹن وزنی اور تقریبا اڑھائی سو ٹن کارگو گنجائش والا دنیا کا سب سے بڑا کارگو جہاز اسی نے بنایا تھا۔ کوئی اور ملک ایسا جہاز نہیں بنا سکا۔ جنگ میں یہ جہاز تباہ ہوگیا لیکن یوکرین اس سے بہتر نیا جہاز بنا رہا ہے۔
دوسری طرف اس کی کان کنی کی یہ حالت کہ روس کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی کی ٹرمپی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ یوکرین کی دھاتیں امریکہ نکالے گا۔ کیوں؟ دھاتیں نکالنے کی ٹیکنالوجی ترقی یافتہ یوکرین کے پاس ہے ہی نہیں۔ ویسے ہی جیسے ایٹمی پاکستان کے پاس نہیں۔ ادھر بھولے بلوچ گینتی بیلچے کے برتے پر سونا نکالیں گے۔ ملکی بربادی کے ضمن میں ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ جنرل ایوب کی کردار کشی اور بلوچوں کو ورغلانے کو ہفت روزہ الفتح نے 1975 میں لکھا کہ جنرل ایوب نے شاہ ایران کے حکم پر مکران میں تیل کے کنویں پگھلا سیسہ ڈال کر بند کر دیے کیونکہ ایرانی کنوؤں سے تیل کھنچ کر ادھر آ جاتا تھا۔ کسی نے نہیں سوچا کہ تیل کے ایرانی کنویں ادھر نہیں، ہزاروں میل دور عراق اور کویت کی سرحدوں کے پاس ہیں۔ اور مٹھی بھر سیسے کی قیمت (آج) 2 ہزار روپے کلو ہے۔ موہومہ پاکستانی کنوؤں میں اربوں روپے کا ہزاروں ٹن سیسہ ڈالنے کا کام بھنگ پی کر ہی ممکن ہے جس کی توقع جنرل ایوب سے نہیں ہو سکتی۔
بدامنی کا ذمہ دار دوسرا فریق وہ (نا) دیدہ آسیب ہے جس نے ہمیں نڈھال کر رکھا ہے۔ اسی نے گوادر خریدنے پر وزیراعظم کو بیک بینی و دو گوش معزول کیا۔ اسی فکر نے قرآن کو ضامن بنا کر نواب نوروز خان کو پہاڑوں سے اتار کر پھانسی دی۔ اسی فکر نے عطا اللہ مینگل حکومت ختم کر کے بلوچوں کو پہاڑوں کا رخ کرا دیا۔ اسی نے اکبر بگٹی کو بندوق دے کر دعوت مبارزت دی۔ ہنستا مسکراتا ملک لاوا بنا دیا۔ یہی فکر اب ملک کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کے درپے ہے۔ حالانکہ طاقت اور نزاکت کی خوراکیں لینے کی ترکیب حکیم الامت عشروں قبل بتا گئے ہیں کہ حلقہ یاراں (اندر) کے لیے ریشم اور تلوار باطل(سرحد پار) پر چلتی ہے۔ یہ ہارڈ اسٹیٹ تو مجھے باجوہ ڈاکٹرائن کا تازہ ایڈیشن لگتا ہے۔ گریڈ 22 کا یہی خود سر افسر یمنی آگ میں اپنی فوج جھونک دینے کو کہہ آیا تھا۔ بھلا ہو پارلیمان کا جس نے ہمیں نئی فرقہ واریت سے بچا لیا۔
اس وقت ملک کو جنرل ضیا الحق کی فکر درکار ہے۔ ان کی آئین شکنی اگر لائق گردن زنی ہے تو بصیرت افروز طریقے سے مقاصد مملکت کا حصول ان کی برآت کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے خان عبدالولی خان کے ٹرائل کے لیے بھٹو کا حیدرآباد ٹرائبیونل توڑ کر تمام “غدار” اسیروں کو عام معافی دے دی۔ سندھ کے آباد کار قوم پرست جی ایم سید کو پھول بھیج کر ان کے جبڑے کا زہر نکال لیا۔ سوئی گیس ہزار میل دور اسلام آباد میں موجود تھی لیکن ڈیڑھ سو میل پرے کوئٹہ محروم تھا۔ شہید جنرل نے کوئٹہ تک گیس پہنچا کر بلوچوں کے دل جیت لیے۔ انہوں نے وہ حالات پیدا کر دیے کہ لڑاکے بلوچ پہاڑوں سے اتر کر عام زندگی میں آگئے۔ پوربو پاکستان میں جنرل اعظم خان اور کوئٹہ میں تعینات جنرل ناصر جنجوعہ کا انداز کار چاہیے۔جنرل اعظم کو پرانے بنگالی آج بھی دیوتا کہتے ہیں۔ جنرل جنجوعہ کی بصیرت کے سبب سینکڑوں بلوچوں نے ہتھیار پھینک دیے تھے، ابھی کل کی بات ہے۔۔ ہمیں یہ فکر چاہیے۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی، سابق وزیر قانون امان اللہ کنرانی، مولانا ہدایت الرحمن اور پارلیمان، نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین اور سید مشاہد حسین جیسے چند دیگر احباب مل کر بلوچستان کی بدامنی بحسن و خوبی دور کر سکتے ہیں۔ یہی اجتماعی فکر اس وقت کی دانش برھانی ہے۔ سیاست دانوں کی کرپشن کی مالا جپنا اب بند کر دیجئے کہ ابھی ہم دیگ سے نکلا صرف پاپا جونز پیزا ہی چکھ پائے ہیں۔ ابھی اس بحر میں لاکھوں ہیں لو لوئے لا لا۔ منہ نہ کھلوائیے۔