پاکستان اس وقت ایک پیچیدہ سیکیورٹی بحران سے دوچار ہے، جہاں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین واقعات اور اعداد و شمار اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں عسکری، سفارتی، معاشی، اور سماجی اصلاحات شامل ہوں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ان میں پڑوسی ممالک افغانستان ھندوستان کی روایتی مداخلت اور ایران کے کچھ گروہ بھی اس میں ملوث ھیں۔ جنکے پاکستان کی سٹریٹیجک فورسز کے پاس محفوظ ھیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کی جنوری 2025 کی رپورٹ کے مطابق، اس ماہ 74 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں 120 افراد ہلاک اور 120 زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں 52 سیکیورٹی اہلکار، 20 عام شہری اور 48 عسکریت پسند ہلاک ہوئے، جبکہ زخمیوں میں 53 سیکیورٹی اہلکار، 54 عام شہری اور 13 عسکریت پسند شامل تھے۔
انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (IEP) کے جاری کردہ عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025ء کے مطابق، پاکستان میں 2024ء کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان اس انڈیکس میں دنیا بھر میں دھشت گردی کے شکار ممالک میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ مسلسل بڑھ رہا ہے، جس کے لیے ایک جامع قومی حکمت عملی اور تجربہ کار قیادت کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اس وقت قومی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مضبوط اور مربوط حکمت عملی پر زور دیا جا رہا ہے۔ تاہم، موجودہ چیلنجز کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے مدبر راھنما سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے وسیع تجربے اور سیاسی تدبر سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کرکے قومی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنایا، جبکہ 2013 سے 2017 تک کے دور میں ملک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ ان کے دور حکومت میں آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان جیسے اقدامات کیے گئے، جن کے باعث دہشت گردی پر قابو پایا گیا۔ آج جب پاکستان کو ایک نئی دہشت گردی کی لہر کا سامنا ہے، تو نواز شریف کے تجربے اور سیاسی حکمت عملی کو بروئے کار لانا انتہائی اہم ہوگا۔اگرچہ موجودہ وفاقی حکومت کو میاں محمد نوازشریف کا بھرپور اعتماد حاصل ھے لیکن میاں صاحب مزاجاً حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ دھشت گردی کے خاتمے میں فوج کا ایک کلیدی کردار ضرور ھے لیکن عسکری کردار سے بڑھکر اس وقت سیاسی کردار ادا کرنے کی بھی اشد ضرورت ھے۔
دہشت گردی کے بنیادی اسباب میں درج ذیل امور قابل ذکر ھیں
افغان سرحد سے دراندازی، 23 مارچ 2025 کو شمالی وزیرستان کے غلام خان علاقے میں 16 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان سرحد سے دہشت گردوں کی آمد ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔
بلوچ علیحدگی پسند تحریک کافی عرصے سے سرگرم عمل ھے اس وقت بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے حملوں میں تیزی آئی ھے اس سلسلے میں انہیں مالی لحاظ سے بھارت کی پشت پناھی بھی حاصل ھے۔ ایک حالیہ واقعے میں 26 مغوی افراد اور 33 عسکریت پسند مارے گئے۔
3. عدالتی و قانونی کمزوریاں: انسداد دہشت گردی کے قوانین پر مکمل عملدرآمد نہ ہونا اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف مؤثر قانونی کارروائی کا فقدان پایا جاتا ھے۔
سماجی و اقتصادی مسائل قابل توجہ ھیں بے روزگاری، غربت اور تعلیمی پسماندگی ایسے عوامل ہیں جو نوجوانوں کو انتہا پسند گروہوں کی طرف مائل کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے سدباب کے لیے ایک متوازن اور مؤثر پالیسی کی ضرورت ہے، جس میں سیاسی، سفارتی، سماجی، اور معاشی اقدامات شامل ہوں۔
1. عسکری و انٹیلی جنس آپریشنز
آپریشنز کی شدت میں اضافہ: آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے اقدامات کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
خفیہ اداروں کے درمیان تعاون کو بڑھایا جائے تاکہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کیا جا سکے۔
سرحدی سیکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے، خاص طور پر افغان اور ایرانی سرحدوں پر جدید نگرانی کا نظام متعارف کرایا جائے۔
انتہا پسندی کے نظریاتی محاذ پر قابو
مدارس اصلاحات: نصاب میں ایسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں جو انتہا پسندی کے خاتمے میں مدد دیں۔
سوشل میڈیا اور میڈیا مانیٹرنگ: نفرت انگیز مواد کی تشہیر کو روکنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔
علماء اور اساتذہ کو اعتدال پسند بیانیہ فروغ دینے کے لیے متحرک کیا جائے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف سخت کارروائیاں کی جائیں۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جدید تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
معاشی استحکام اور روزگار کی فراہمی
تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبے: نوجوانوں کو انتہا پسندی سے روکنے کے لیے اقتصادی مواقع فراہم کیے جائیں۔
سماجی تحفظ کے منصوبے: کم آمدنی والے طبقات کے لیے فلاحی منصوبے متعارف کرائے جائیں۔
سرحدی مسائل حل کرنے اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
عالمی برادری کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں تاکہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی مدد حاصل کر سکے۔
مقامی آبادی کی شمولیت
عوامی سطح پر امن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو انتہا پسندی کے خاتمے میں مدد کریں۔
میڈیا میں ایسے پروگرام نشر کیے جائیں جو رواداری اور امن کے فروغ میں مددگار ثابت ہوں۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں انسداد دہشت گردی کی کامیابیوں کا گراف بلند ھے۔
2024 میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف 59,775 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے، جن میں 925 دہشت گردوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان آپریشنز میں روزانہ کی بنیاد پر 169 کارروائیاں کی گئیں، جن کے نتیجے میں 73 انتہائی مطلوب دہشت گرد مارے گئے۔
پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی، جس میں عسکری اقدامات کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام، سفارتی تعلقات، عدالتی اصلاحات، اور معاشی ترقی کو شامل کیا جائے۔
اس وقت ملک کو نہ صرف وزیراعظم شہباز شریف کی متحرک قیادت، بلکہ محمد نواز شریف کی تجربہ کار حکمت عملی اور سیاسی بصیرت سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ حکومت نواز شریف کے ماضی کے کامیاب تجربات کو بروئے کار لائے، تو پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نجات دلانے میں مدد مل سکتی ہے تب ھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
