ترکیہ میں ہنگامہ ہے برپا۔ صدر اردوان کے حریف کی گرفتاری…(2) : تحریر افتخار گیلانی


اس حادثے کے بعد وزیر اعلی کیشو بھائی پٹیل کو استعفی دینا پڑا اور نریندر مودی، جو اس وقت ریاستی سیاست میں نووارد تھے، کو گجرات کا وزیرِ اعلی مقرر کر دیا گیا۔ ماہرِ انسانیات ایڈورڈ سمپسن اپنی کتاب ”دی پولیٹیکل بایوگرافی آف این ارتھ کوئیک” میں لکھتے ہیں کہ یہ بحران نہ صرف مودی کے لیے اقتدار کا راستہ تھا بلکہ ایک مضبوط سیاسی بنیاد استوار کرنے کا موقع بھی تھا۔ وقت گزرا، اور 2014 میں وہ وزیرِ اعظم بن گئے ، پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اسی طرح 1999 میں ترکیہ کے ازمیت میں آنے والے زلزلے، جس میں تقریبا 20 ہزار افراد جان سے گئے، نے بھی ترکیہ کی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ پیدا کیا۔ اسٹیفن کنزر اپنی معروف کتاب ”کریسنٹ اینڈ اسٹار: ترکی بیٹوین ٹو ورلڈز” میں لکھتے ہیں کہ ترکیہ کی تاریخ کو اس زلزلے سے پہلے اور بعد میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں: زلزلے نے لاکھوں ترکوں کو ان اداروں پر سوال اٹھانے پر مجبور کیا جنہیں وہ کبھی چیلنج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔اس انتشار کے عالم میں اردوان توانائی کے ساتھ منظرِ عام پر آئے۔ جس طرح آج امام اولو زیر عتاب ہیں بالکل اسی طرح اردوان کو بھی 1998 میں قید کی سزا سنائی گئی تھی جب وہ استنبول کے میئر تھے۔ انہوں نے عوامی جلسے میں ایک نظم پڑھی تھی، جو ضیا گوک لپ کی نظم ”سپاہی کی دعا” کا ترمیم شدہ نسخہ تھی، جسے ترک عدالتوں نے اشتعال انگیز قرار دیا۔ انہیں ایک سال قید اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی کی سزا سنائی گئی۔ مگر تقدیر کا کھیل دیکھئے آج وہی اردوان اقتدار کے عروج پر ہیں، اور امام اولو ، موجودہ استنبول کے میئر جیل میں ہیں، پر بھی عوامی عہدے سے نااہلی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ استنبول کا میئر صرف ایک شہر کا منتظم نہیں ہوتا۔ ترکیہ میں بھارت یا پاکستان کی طرح صوبائی حکومتیں نہیں ہیں ۔یہاں صوبائی حکومتوں کے کام بلدیہ کرتی ہے ۔ایسے میں استنبول ، جو ملک کا معاشی، ثقافتی اور آبادیاتی مرکز ہے ،کا میئر بے پناہ اختیارات رکھتا ہے۔ دو کروڑ سے زائد کی آبادی اور اربوں ڈالرز کے سرکاری وسائل پر اختیار کے ساتھ، یہ منصب ترکی میں صدارت کے بعد سب سے طاقتور عہدہ سمجھا جاتا ہے۔اس کی تشبیہ بھارت میں اتر پردیش اور پاکستان میں پنجاب کے وزیر اعلی کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔ جو بھی استنبول پر حکومت کرتا ہے، اسے اکثر ایک ممکنہ قومی رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بات اردوان کے بارے میں درست ثابت ہوئی اور اب امام اولو کے بارے میں بھی یہی گمان ہے۔ امام اولو کی پارٹی سی ایچ پی ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی قائم کردہ جماعت ہے۔ گو پچھلی کئی دہائیوں سے وہ اقتدار سے باہر ہے، مگر بھارت کی کانگریس کی طرح آزادی کے بعد اس نے بیشتر وقت حکومت کی سربراہی کی ہے۔ 2002 سے یہ جماعت اقتدار سے باہر ہے، اس کی آخری اپنے بل بوتے پر حکومت 1979 میں تھی۔ یہ صورتحال بھارت میں کانگریس پارٹی کی یاد دلاتی ہے، جو 2014 سے مرکز میں اقتدار سے باہر ہے، 1989 کے بعد سے اکیلے حکومت نہیں بنا سکی۔سی ایچ پی اپنے سیکولر اور کمالسٹ نظریات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ مگر اب اس کی صفوں میں کئی دائیں بازو کے افراد بھی شامل ہیں۔ خود امام اولو قرآن اسکول سے فارغ ہیں اور ترگت اوزال کی مدر لینڈ پارٹی سے انہوں نے سیاست کی شروعات کی تھی۔سی ایچ پی کے ایک اور لیڈر جن کے صدارتی امیدوار بننے کے چانس بھی ہیں وہ انقرہ کے میئر منصور یاواش ہیں، ان کا سیاسی بیک گراونڈ بھی دائیں بازو کا ہے۔ پچھلے انتخابات میں اپوزیشن کا جو اتحاد وجود میں آیا تھا، ترکیہ کی سب سے بڑی اسلام پسند تنظیم سعادت پارٹی ، جو اخوان المسلون کی ہم عصر ہے، نے اردوان کے خلاف سی ایچ پی کا ساتھ دیا۔ بلکہ سعادت پارٹی نے ہی مفاہمت کرواکے کلیچی داراولو کو مشترکہ صدارتی امیدوار بنانے پر دیگر پارٹیوں کو راضی کروالیا تھا۔پچھلے سال کے بلدیاتی انتخابات نے سی ایچ پی میں نئی روح پھونکی ہے۔ اگرچہ نو ماہ قبل صدارتی انتخاب میں اسے شکست ہوئی تھی، مگر بلدیاتی انتخابات میں یہ پارٹی 14 بڑے شہروں، 21 صوبوں اور 337 ضلعی کونسلوں میں کامیابی کے ساتھ ابھری ہے، اور ووٹ شیئر میں 15 فیصد اضافہ ہوکر اس نے 35.48فیصد ووٹ بٹورے ۔ حکمران آق پارٹی محض 32.38 فیصد ووٹ لے سکی۔ اردوان کی آق پارٹی گو کہ نجم الدین اربکان کی اسلام پسند رفا پارٹی کی کوکھ سے نکلی ہے، مگر وہ اب ایک ایسے اتحاد کی قیادت کرتی ہے، جس میں ترک قوم پرست ایم ایچ پی، اور بائیں بازو کی ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی بھی شامل ہے۔انقرہ سے شائع ہونے والے اردو نیوز پورٹل ترکی اردو کے ایڈیٹر فرقان حمید کے مطابق، اگرچہ اردوان کی جماعت کے پاس اب بھی بڑا ووٹ بینک ہے لیکن ان کی اصل کمزوری خراب ہوتی معیشت ہے، نہ کہ متحدہ حزبِ اختلاف۔ اردوان خود تو خاصے راسخ العقیدہ مسلمان اور صوم و صلوت کے پابند ہیں، مگر انہوں نے اسلامی شعار اپنانے پر کسی کو مجبور کیا نہ کوئی ایسے فرمان جاری کئے۔ اپنی پارٹی کو بھی انہوں نے مذہبی جامہ نہیں پہنایا۔ملک میں سول کوڈ تو یورپ کے قوانین کی ہی نقل ہے۔ ترکیہ میں نائٹ کلب ، کیسینو، شراب کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے، بلکہ کئی مقامات پر یہ مساجد کے بالکل مقابل ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں جگہوں پر جم غفیر ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو کوئی چھیڑتا نہیں ہے۔ اردوان نے خواتین کے حجاب پہننے پر جو سختی کے ساتھ پابندی عائد تھی، اس کو خواتین کی چوائس اور آزادی کی آڑ میں ختم کروایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سیاست میں فوج کی عملداری بند کروادی اور ان کو بیرکوں تک محدود کروادیا۔ پاکستان کی طرح ترکیہ میں بھی فوج نے چار بار حکومت کا تختہ پلٹ کر زمام کار سنبھالی ہے۔ اردوان کی آمد کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ چونکہ اردوان نے ابھی تک اپنا کوئی جانشین نامزد نہیں کیا ہے، اس لئے غالب امکان ہے کہ وہ شاید ایک بار پھر صدارت کیلئے قسمت آزمائی کریں گے، مگر اس کیلئے ان کو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ ترکی کی 600 رکنی پارلیمنٹ میں سی ایچ پی کے پاس اس وقت 134 نشستیں ہیں۔ حکمران آق پارٹی کے پاس 272 سیٹیں ہیں، اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان کے پاس 324 ارکان کی حمایت حاصل ہے جو حکومت سازی کے لیے کافی ہے، مگر 400 نشستوں کی اس حد سے کم ہے جو آئین میں ترمیم کے لیے درکار ہے۔(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز