بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے حوالے سے بلاول بھٹو نے اپنے ایک بیان میں قومی سلامتی کمیٹی کی ایک اور میٹنگ بلانے کی تجویز پیش کرتے ہوے کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو اس اہم اجلاس میں شرکت کیلئے ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی اس پیشکش کو حکومت نے فوری مان لیا اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی ذمہ داری سونپ دی کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اور اجلاس کے بلائے جانے پر تحریک انصاف سے شرکت کرنے کے حوالے سے بات چیت کریں۔ بلاول بھٹو کی یہ تجویز اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دہشتگردی جیسے بڑے مسئلے پر قابو پانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے کا ہونا بہت ضروری ہے۔حال ہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا جو اجلاس پارلیمنٹ میں ہوا تھا، اُس میں تحریک انصاف اور چند دوسری اپوزیشن جماعتوں نے شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ تحریک انصاف نے ابتدا میں تو اجلاس میں شامل ہونے کی ہامی بھر لی تھی لیکن بعد میں عمران خان سے مشاورت کی اجازت نہ ملنے پر اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ اس حوالے سے حکومت کا یہ کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے ہمیشہ قومی اہمیت کے ایسے اجلاسوں میں کسی ایک بہانے یا کسی دوسرے بہانے ہمیشہ شرکت سے گریز کیا، بات درست ہے لیکن حکومت کو دہشتگردی کے معاملہ پر قومی اتفاق رائے کے حصول کی خاطر تحریک انصاف کے رہنماوں کو عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملنے کی اجازت دے دینی چاہیے تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان تو اپنی حکومت کے دوران بھی قومی اہمیت کے حامل کسی اجلاس میںاپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہ ہوئے۔اگرچہ تحریک انصاف نے اس اہم اجلاس میں شرکت نہ کی لیکن اُن کے کچھ رہنما اپنی پارٹی کے اس فیصلہ پر خوش نہ تھے اور اُن کا خیال تھا کہ دہشتگردی جیسے اہم قومی مسئلہ پرکمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ بعد میں جب عمران خان سے پارٹی رہنماوں کی ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے اجلاس کے بائیکاٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ بعد میں عمران خان نے سوشل میڈیا میں جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں جعفر ایکسپریس کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات میں فوجی اور سویلینز کی قیمتی جانوں کے ضیاع کا جتنا دکھ ہمیں ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا کیوں کہ تحریک انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس سے تمام صوبوں کی اکثریت جڑی ہے۔ اُنہوں نےکہا کہ تمام ایجنسیاں دہشتگردی کی روک تھام کی بجائے تحریک انصاف کو ختم کرنے پر لگائی ہوئی ہیں۔شہباز شریف حکومت کو ایک بار پھر اُنہوں نے اردلی حکومت پکارتے ہوے کہا کہ اردلی حکومت کی خارجہ و داخلی پالیسیاں ملک کیلئے زہر قاتل ہیں۔ خان صاحب شہباز حکومت کو اردلی حکومت اس تاثر کی بنا پر کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اصل حکمران ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کا کردار بلاشبہ بہت زیادہ ہو چکا اور اگر عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں تو یہ عمومی رائے کے مطابق ہے لیکن اگر خان صاحب پورے سچ پر سے پردہ اُٹھائیں تو پھر اُنہیں بھی ماننا پڑے گا کہ اُن کی اپنی حکومت بھی اردلی حکومت ہی تھی۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد تحریک انصاف حکومت کے کچھ متنازع فیصلوں کے حوالے سے کہا کہ وہ تو اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا تھا۔ خان صاحب اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایجنسیوں کو سیاست اور سیاسی معاملات کی بجائے دہشتگردی کے معاملہ پر پوری توجہ دینی چاہیے تو یہ درست بات ہے لیکن کیا یہ بھی سچ نہیں کہ عمران کے اپنے دور حکومت میں ایجنسیاں کیا وہ کچھ نہیں کرتی تھیں جو آج ہو رہا ہے اور کیا عمران خان نے یہ خود تسلیم نہیں کیا تھا کہ اپنے دور حکومت میں وہ اسمبلی کے اجلاسوں میں قانون سازی کے لیے حکومتی ممبران اسمبلی کو پارلیمنٹ میں بلانے تک کے لیے آئی ایس آئی کو کہتے تھے۔ اگر سیاستدان چاہتے ہیں کہ اردلی حکومتوں کا خاتمہ ہو تو پھر اُنہیں اپنے اقتدار کی بجائے پاکستان کے مفاد کے لیے کوشش کرنی ہو گی، جب حکومت ملے تو دن رات ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے ایک کر دیں اور جب کوئی قومی معاملہ ہو تو چاہے حکومت ہو یا اپوزیشن،سب اپنے اپنے سیاسی مفادات اور اختلافات سے بالاتر ہو کر صرف پاکستان کی خاطر مل بیٹھیں۔ اگر سیاست دان آپس میں ہر معاملے پر لڑتے ہی رہیں گے اور قومی مفاد کے مسائل پر بھی سیاست ہی کریں گے تو پھریہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔