بشیر میمن سے دلچسپ مکالمہ…ڈاکٹر صغرا صدف

چیئرمین پرائم منسٹر یوتھ پروگرام ،رانا مشہود احمد خان صرف قلمکاروں ، کالم نویسوں، تجزیہ نگاروں، لکھاریوں اور سماجی خدمت گاروں سے رابطے میں رہتے ہیں، ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ایسا اکٹھ کرتے رہتے ہیں جس میں مختلف لوگوں سے مکالمے کی صورت ذہن میں کلبتے بہت سے سوالوں کی تشفی ہوتی ہے۔اب ایک دن کے نوٹس پر انھوں نے سندھ میں مسلم لیگ نون کے صدر بشیر احمد میمن سے افطار پر ملاقات کا اہتمام کیا تو لوگ دیگر دعوتیں اور مصروفیات بالائے طاق رکھتے ہوئے کھچے کھچے افوش کلب پہنچے۔ بشیر میمن نے اپنی تقریر میں مسلم لیگ ن کی کامیاب معاشی پالیسیوں کے باعث جماعت سے وابستگی کی کہانی کے بعد تین اہم تجاویز بیان کیں جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

آجکل دریا سے نہریں نکالنے والا معاملہ بہت زیرِ بحث ہے تو ان کی پہلی تجویز یہ تھی کہ چھ نہروں کا حل 1991ءکے واٹر ریکارڈ تقسیمِ آب معاہدے پر عمل سے نکالا جا سکتا ہے۔اسلئے اس پر فوری توجہ کی جائے۔پانی کی چوری روکنے اور منصفانہ تقسیم کے لئے ٹیلی میٹری سسٹم لاگو کیا جائے ، تو کسی کو بھی شکایت نہیں ہوگی ،کیونکہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر فرد اسے دیکھ کر خود اپنے حصے کے پانی کے بارے میں اصل صورت جان سکے گا۔زراعت میں سبز انقلاب پاکستان کو خوشحال کرنے کا شاندار فیصلہ ہے ، اسکے بارے میں متضاد آرا غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے سندھ میں 46ہزار ایکٹر زمین جو سبز انقلاب کیلئے منتخب کی گئی ہے وہاں سال میں پانچ مہینے فوج مشقیں کرتی ہے اور باقی وقت یہ بے آباد رہتی ہے۔اگر یہ زمین آباد ہو گی تو سندھ اور پاکستان کو فائدہ ہوگا اور منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کی بھی روک تھام ہوگی۔اسلئے یہ منصوبہ کامیاب ہونا چاہیے۔بلاشبہ یہ ایک نیک نیت انسان کی عمدہ تجاویز تھیں ، دونوں صوبوں کے لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنے کے لئے ان پر عمل کرنا چاہیے ۔سوال وجواب کے سیشن میں رضوان رضی دادا نے نہ صرف بشیر میمن بلکہ حاضرین سے بھی سوال کا جواب طلب کیا کہ آج تک مسلم لیگ ن سندھ میں گورنر تعینات کیوں نہیں کرسکی ، دوسرا یہ کہ سندھ گورنرشپ کچھ عرصے سے مہاجر کوٹے کی نذر کیوں ہو گئی ہے، بشیر میمن تو اس سوال کے جواب میں مسکرانے تک محدود رہے تاہم پہلی درخواست تو یہ کہ پون صدی گزرنے کے بعد سب اس ملک کے مالک ہیں کسی کو مہاجر کہنا ، کہلوانا ختم کردینا چاہیے۔پاکستان کے لئے سندھیوں نے ووٹ دیا تھا۔سندھیوں کے ووٹ سے مسلم لیگ کی حکومت وجود میں آئی ،کراچی جو سندھ کا شہر ہے جس میں 35 فیصد مہاجر اور 65 فیصد سندھی و دیگر رہتے ہیں۔کسی بھی صوبے کا سب سے بڑا عہدہ گورنرشپ کوٹے سسٹم کی نذر نہیں ہونا چاہیے ، سب سے پہلے تو ایم کیو ایم کو یہ تقسیم ختم کرنی چاہیے اور سندھ کے سماج میں رچ بس کر اپنا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کرناچاہیے، وہ گورنر تک نہ رہیں وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم بھی بنیں۔پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے کبھی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تمام صوبوں میں متحرک بھی ہوتی تھیں اور حکومتیں بھی بناتی تھیں لیکن اب کچھ عرصے سے یہ عالم ہے کہ ہر پارٹی ایک صوبے تک محدود ہوتی جا رہی ہے، آج کی صورتحال پر نظر کریں تو مسلم لیگ نون پنجاب، پیپلز پارٹی سندھ اور تحریک انصاف کے پی کے تک محدودہوتی نظر آتی ہے، جماعتوں کو صوبوں تک محدود کرنے سے لوگوں کے اندر نفرت اور علیحدگی کے جذبات بڑھنے لگے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ جماعتوں کی دیگر صوبوں میں رسائی کے راستوں میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ تاکہ سیاسی جماعتیں لوگوں کو وفاقی سطح پر مضبوطی سے جوڑے رکھنے کی کوششیں جاری رکھ سکیں۔یہ حیرت کی بات ہے کہ ایک جماعت جس کی بظاہر پاکستان پر حکومت ہے وہ سندھ جہاں مسلم لیگ نون کا گورنر ہونا چاہیے تھا وہاں بھی ابھی تک اپنا گورنر تعینات نہیں کر سکی۔ایسے اقدامات لوگوں کو بد دل کرتے ہیں۔ضروری ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ نون اپنے کسی فرد کو گورنر تعینات کرے تاکہ سندھ میں مسلم لیگ نون سے وابستہ لوگوں کو ایک طاقتور پلیٹ فارم میسر آئے اور سیاسی رہنماؤں کو لوگوں سے رابطے میں سہولت ہو۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کو اپنے تمام صوبائی صدور کو عزت و احترام کے ساتھ ایک جیسے عہدے اور اختیارات بھی دینا چاہئیں ،تمام صوبوں کے صدور اس وقت کسی نہ کسی صورت وفاقی کابینہ میں موجود ہیں۔ایک بلوچستان کا گورنرہے، تو سندھ سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 80ہزار ووٹ لینے والے بشیر میمن کو بھی وفاقی عہدے سے نوازنا ضروری ہے تاکہ وہ اگلے انتخاب تک لوگوں تک رسائی کے ذریعے بہتر فضا قائم کرسکیں۔ مسلم لیگ ن کو صرف پنجاب پر فوکس کی بجائے دیگر صوبوں میں حکمت عملی پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ