بیگم اکبر جہاں، ایک نومسلم انگریز جان نیڈواور ایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھی مگر سخت مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔من موہن سنگھ کی وزارت عظمی کے دور میں وزیر اعظم ہاوس میں افطار پارٹی کے موقع پر دیکھا کہ چند مسلم زعما نے وزیر اعظم اور سونیا گاندھی کو گھیرا ہوا تھا، وہ سوال کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے چند سال قبل مسلمانوں سے متعلق سچر کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کے باوجود عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟۔ پبلک سیکٹر بینک مسلم تاجروں یا اسٹاٹ اپ کو قرضے دینے سے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ میں انہی دنوں میرٹھ کسی سٹوری کے سلسلے میں گیا تھا اور وہاں ہاشم پورہ محلہ کے 1989 کے فسادات کے مثاثرین سے ملنے پہنچا۔ فسادات کے متاثریں میں ایک ڈاکٹر جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے، ٹھیک ہوکر بزنس کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ان کی میڈیکل لائسنس کینسل کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتیاعلانات کے باوجود، کوئی بھی بینک لون نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سے اپنے ایک پرنٹنگ پریس میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ پریس پھر کیسے وجود میں آیا؟ تو انہوں نے کہا کہ سال بھر قبل ادھر چوک میں ایک کشمیری بینک کھلا۔ جب میں نے وہاں درخواست دی تو انہوں نے فورا منظور کی۔ معلوم ہوا کہ جموں و کشمیر بینک، جو بھارت کا پبلک سیکٹر کا چوتھا بڑا بینک تھا، اس کی شاخ کھل گئی تھی۔ اس سے میرے دماغ کی بتی جیسے روشن ہوگئی۔ وزیر اعظم کے ساتھ اس گروپ کی تکرار سنتے ہوئے، میں نے وہیں کھڑے ہی مشورہ دیا کہ بینکوں کے اس رویہ کا حل بس یہ ہے کہ جموں و کشمیر بینک کو ترغیب دی جائے کہ مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اپنی شاخیں کھولے۔ من موہن سنگھ نے کہا کہ ابھی افطار کا وقت ہو رہا ہے۔ ڈنر کے بعد چند منٹ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ ان زعما کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پر میں نے ان سے کہا کہ اس وقت ملنے کے بجائے ان سے باضابطہ اپائنٹمنٹ لیکر تیاری کے ساتھ میٹنگ کا بندوبست کرو۔ ہوسکے تو سچر کمیٹی کے افسران ظفر محمود اور ابو صالح شریف کو اپنے ساتھ وفد میں لے کر ملاقات کا بندوبست کرو۔ وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، چونکہ اس کو معلوم ہوگا کہ ملاقات کا ایجنڈہ کیا ہے وہ کیبنٹ سیکرٹری یا کم سے کم فائنانس سیکرٹری کو بھی بلائیں گے اور ہاتھوں ہاتھ آپ کے مسائل حال ہوجائیں گے۔مگر کون سنتا۔ خیر ڈنر کے بعد لان کے متصل کمرے میں ان زعما کو بلایا گیا۔ چونکہ جس وقت انہوں نے وزیر اعظم کو گھیرا ہوا تھا، میں بھی موجود تھا، اس لیے گھیر کر مجھے بھی ان کے ساتھ ہی لے جایا گیا۔ وزیر اعظم کے سیٹ پر بیٹھتے ہی، بجائے ان سے سچر کمیٹی کی سفارشات پر گفتگو کی جاتی، لکھنو سے آئے ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ حال ہی میں بھار ت نے کیوں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹنگ کی؟ اس معامعلہ کو لیکر انہوں نے خوب تقریرجھاڑی۔ مجھے بس اتنا سنائی دیا کہ من موہن سنگھ نے کہا کہ اس میں ملک کا مفاد تھا اس پر وہ کوئی اور گفتگو نہیں کریں گے۔ لگا کہ اب اپنے مسائل پر یہ زعما بات کریں گے کہ ایک کونے سے ایک اور صاحب نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہی بربریت کا ایشو اٹھایا اور سوال کیا کہ ان کی حکومت اس پر کیوں خاموش ہے۔ دس منٹ کی یہ میٹنگ اسی غیر سنجیدگی اور خارجہ پالیسی سے متعلق تقریروں کے ساتھ ختم ہوگئی۔ جس کیلئے یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی، وہ ایشو ہی نہیں اٹھائے گئے۔ اس واردات سے پرے افطار پارٹیاں یقینا حکمرانوں کے ساتھ ایک کھلے اور باوقار ماحول میں براہ راست ملنے کا موقع فراہم کرتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 70کی دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آوٹ ریچ کے لیے افطار پارٹیوں کے سلسلہ کو شروع کردیا تھا، جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے اداور میں یہ افطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیر اعظم مودی اور ان کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو ایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے، افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضح مثا ل ہے۔حال اب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی اپنے حامیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو لیڈروں کی تصویر یا پارٹی کا بینر آویزاں نہیں ہونا چاہیے۔ چند سال قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی نے لیڈروں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظر آئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ پچھلے سالوں سے کئی شہروں میں مسلمانوں کے لیے افطاری کا بندوبست کرتی ہیں۔ اس سال تو دہلی میں اسرائیلی سفارت خانہ نے بھی افطار پارٹی منعقد کی۔ پتہ نہیں کہ اس میں شامل مسلمانوں نے اسرائیلی سفیر کو فلسطین اور غزہ پرمسلط جنگ کے حوالیسے تحفظات سے آگاہ کیا کہ بس شکم بھر کر ہی واپس لوٹے۔ خیر بھارت میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یا ان کی تقریبات میں شرکت کریں گی ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے، مگر اب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظر آتی ہیں تو انہیں ہندو اکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا۔ اس کے ماننے والوں نے ہندوستان میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کا استعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز