ہندوستان تقسیم ہوا تو اسکے چار بنیادی آئینی اصول تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے مطابق مذعومہ نوآزاد برصغیر نے شہریوں کے جان و مال، شہری، بنیادی آزادیوں اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دینا تھی۔ مسلم لیگ نے لاہور میں قرارداد پاکستان پاس کی تو لارڈ لنتھگو اعلان اگست 1940ء کے ذریعے دوسری ممکنہ عالمی جنگ سے پہلے ہندوستانی باشندوں کو دستور سازی کی ضمانت دے چکے تھے۔ یاد رہے کہ وائسرائے ہند جب یہ اعلان کر رہے تھے تو عالمی جنگ شروع ہونے میں ایک ماہ باقی تھا اور قرارداد لاہور کی منظوری میں آٹھ ماہ باقی تھے۔ ستمبر 1939ء میں کانگرس نے اس بنیاد پر وزارتوں سے استعفے دیے کہ ان سے عالمی جنگ میں فریق بننے پر مشاورت نہیں کی گئی۔ قائداعظم نے کانگرسی وزارتوں کے مستعفی ہونے کو ’یوم نجات‘ قرار دیا جبکہ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے کانگریس نے ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کی تحریک شروع کی۔ برطانیہ کو اس جنگ میں کم و بیش پچیس لاکھ ہندوستانی فوجی درکار تھے جن میں سے بیشتر شمالی افریقہ میں کام آئے۔ دوسری طرف قائداعظم محمد علی جناح نے جنگ میں برطانیہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ اگرچہ انہوں نے شرط رکھی کہ مسلمان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ انکی اجازت سے وائسرائے کی وار کونسل میں شریک ہونگے۔ سر سکندر حیات ، فضل الحق، علی امام اور بیگم شاہ نواز سمیت قائداعظم کے حمایت یافتہ کسی وزیراعلیٰ نے انکا حکم نہیں مانا۔ بیگم شاہ نواز نے فرمایا کہ میں عورتوں کے حقوق کی آواز اٹھانے کیلئے وائسرائے کی کونسل میں جا رہی ہوں۔ لارڈ ویول کی دفاعی کونسل میں عورتوں کے حقوق کا کیا ذکر تھا؟ قائداعظم نے ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کے نعرے میں ’تقسیم کرو اور چھوڑ دو‘ کا اضافہ کیا تھا۔ یہ تقسیم کس بنیاد پر ہونا تھی اسکا جواب تاریخ دان ہی دے سکتے ہیں۔ پنجاب اور بنگال میں ہندو مسلم اکثریت کا تناسب 44اور 56فیصد تھا۔ فرنٹیئر میں 97فیصد مسلمان تھے اور سندھ میں مسلم آبادی 1946ء کے انتخابات میں اپنی وزارت نہیں بنا سکی۔ یو پی اور سی پی میں مسلم آبادی 15سے 18فیصد تھی۔ 1946ء کے انتخابات میں جن علاقوں کو بہرصورت ہندوستان کا حصہ بننا تھا وہاں مسلم مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ کو زبردست کامیابی ملی۔ پنجاب، فرنٹیئر اور سندھ میں معاملات دگرگوں تھے۔ تقسیم 1941ء کی مردم شماری پر ہونا تھی۔ مسلم لیگ کے یہ دعوے بے بنیاد رہے کہ پنجاب اور بنگال غیر منقسم رہیں جبکہ دہلی اور حیدرآباد بھی کسی طور پاکستان کو مل جائیں۔ اکرام اللہ اپنی بیگم شائستہ اکرام اللہ سے کہتے تھے کہ دہلی تو ہماری تہذیب ہے۔ افسوس کہ تقسیم تہذیب کی بنیاد پر نہیں ہورہی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن نے جناح کو پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر قائل کر لیا۔ اگست 1946ء کو کلکتہ اور مارچ 1947ء میں پنجاب فسادات نے آتش و آہن کا نیا دروازہ کھول دیا۔ یہ فسادات اور آبادی کا تبادلہ قطعی غیر متوقع تھے لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے اس شورش کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اسکے اسباب معلوم ہیں، بدقسمتی سے بیان کرنا مشکل ہیں۔ قائداعظم نے خلیق الزماں کو یو پی مسلم لیگ کا سربراہ مقرر کیا تھا ۔ خلیق الزماں ان پانچ رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں تقریر کی تھی لیکن کراچی کے وسیع معاشی مفادات انہیں سندھ لے آئے۔ ہندوستان کی تقسیم میں نیم مختار ریاستوں کیلئے صرف دو راستے تھے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہو جائیں۔ اتفا ق سے بیشتر نیم مختار ریاستیں ہندوستان کی جغرافیائی حدود میں واقع تھیں۔ کشمیر واحد سرحدی ریاست تھی جہاں ہری سنگھ اور آبادی میں عقیدے کا اختلاف تھا۔ حیدر آباد اور جوناگڑھ ہندوستان کے قلب میں واقع ہونے کے باعث جغرافیائی اتصال سے محروم تھیں چنانچہ انہیں بھارت کی پولیس نے قابو کر لیا ۔ ہندوستان کی نیم خودمختار ریاستوں کے بارے میں وزیر داخلہ پٹیل کا کردار جاننا ہو تو وی پی مینن کی کتاب (The story of the integration of the indian-states) پڑھئے۔ مغربی پاکستان کی مقامی سیاسی اشرافیہ جناح اور لیاقت کو مہاجر گردانتی تھی۔ عالمی سیاست کا مسلمہ اصول ہے کہ خود مختار ریاستوں کے حکمران باقاعدہ قومی ریاست کے بندوبست میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے۔ خان قلات کا یہی المیہ تھا کہ وہ برطانوی حکمرانوں سے اپنے معاہدے اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا فرق نہیں سمجھتے تھے۔ آج تک بلوچستان کی آبادی کا بڑا حصہ نیم خودمختار بندوبست کے غبارمیں ہے۔ بلوچ ہم وطنوں نے قومی ریاست کے اختیار کوشرح صدر سے قبول نہیں کیا۔ گلگت بلتستان کے رہنے والے بھی اسی مغالطے میں ہیں۔ کشمیر کا معاملہ سردار پٹیل کی زندگی میں حل ہو سکتا تھا لیکن پاکستان اکثریتی آبادی اور ریاستی حکمران کا مخمصہ حل نہیں کر پایا۔ باچا خان نے پاکستان سے وفاداری کا حلف تو اٹھایا لیکن یہ سوال نہیں کیا کہ فقیر ایپی 1960ء تک کس سے لڑ رہا تھا۔ جی ایم سید تو سرے سے جمہوریت سے خائف ہو چکے تھے۔ پاکستان کی منظم فوج کا دو تہائی پنجاب کے شمالی علاقوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس فوج نے جنگ آزادی میں حصہ نہیں لیا تو Man on the horseback میں بیان کردہ اصول کے مطابق سیاست دانوں کو بے توقیر کرنے کی روش اختیار کر لی۔ شیر علی خان میسروی سے کہتا ہے کہ تمہیں سیاستدانوں کو سمجھانا چاہئے کہ باوردی جوانوں سے کس طرح پیش آنا چاہئے ۔ یہ اتفاق نہیں کہ 14جون 1948ء کو بابائے قوم نے فوجی افسروں کو ان کا حلف پڑھ کے سنایا تھا۔ بابائے قوم بے خبر تھے کہ دسمبر 1948ء میں پیدا ہونیوالا ایک مخبوط الحواس چیف آف جنرل سٹاف شاہد عزیز اپنی کتاب میں حلف پر بدزبانی کریگا۔ دستور بارہ صفحات کا کتابچہ قرار پائیگا۔ا سکندر مرزا ملک کے پہلے دستور کو ردی قرار دیگا۔ پاکستان ایک سافٹ اسٹیٹ رہے یا ہارڈ اسٹیٹ کا روپ اختیار کر ے ، جمہور کی حاکمیت کا سوال حل نہیں ہو گا،وفاق کی اکائیوں میں اعتماد کا بحران دور نہیں ہو گا۔ تو معاشی ترقی کا دروازہ نہیں کھل سکے گا۔
(نوٹ:یہ کالم نگار کے اپنے نظریات ہیں اگر کسی کو ان سےاختلاف ہو تو جنگ کے ادارتی صفحات اظہار رائے کیلئے حاضر ہیں)
بشکریہ روزنامہ جنگ