اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ ہم کون سامائنڈ اپلائی کررہے ہیں، آزادانہ مائنڈ کے علاوہ کون سامائنڈ ہے۔ نئے ،نئے کیس اِدھر بناتے ہیں، نئی چیزیں نہیں بنانی، جوچیزپیچھے سے لے کرآئے ہیں اسی کوآگے لے کرچلناہے۔ رمضان میں رمضان کی درخواست خارج کرنا مشکل ہوگا اس لئے درخواست گزار پہلے ٹربیونل چلے جائیں۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے پنجاب حکومت کی جانب سے مسمات عاشی اوردیگر کے خلاف ملازمت ریگولرائزیشن کے معاملہ پردائر4درخواستوں پرسماعت کی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے ملازمین کی ریگولرائزیشن کے فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس منصورعلی شاہ کامدعاعلیہان کے وکیل حافظ محمد طارق نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کس بنیاد پر ریگولرائزیشن مانگ رہے ہیں، آپ غلط یادرست طور پراتھارٹی میں ٹرانسفر ہوگئے، آپ کادل بورڈ آف ریونیو میں ہے اور بیٹھے اتھارٹی میں ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا بینچ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اپنا آزاد ذہن اپلائی کریں گے توہماری ریگولرائزیشن بنتی ہے۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کاخیال ہے ہم کون سامائنڈ اپلائی کررہے ہیں، آزادانہ مائنڈ کے علاوہ کون سامائنڈ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیا پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں کوئی مستقل ملازم بھی ہے۔سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں کوئی ملازم مستقل نہیں۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ورچوآف لاء سے وہاں ٹرانسفر ہوگئے اور ایڈجٹ ہوگئے تھے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ مشکل لگ رہا ہے مدعاعلیہان کاریگولرائزیشن کاکوئی حق نہیں مل رہا، ریگولرائزیشن کاکوئی حق نہیں۔مدعاعلیہان کے وکیل کاکہنا تھا کہ ہمیں مزید دستاویزات جمع کروانے کے لئے وقت دے دیں۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ اتنی دیر کیس سننے کے بعد التواکاکوئی تصورنہیں۔ مدعاعلیہان کے وکیل کاکہنا تھا کہ حکومت نے غلط بیانی کی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ حکومت نے کون سی غلط بیانی کی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم کسی کے کمنٹس میں تونہیں جائیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ہم نے قانون کودیکھناہے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہان کنٹریکٹ پر پراجیکٹ میجمنٹ یونٹ بورڈ آف ریونیو پنجاب میں بھرتی ہوئے،مدعاعلیہان نے اتھارٹی میں ایڈجسٹمنٹ کوچیلنج نہیں کیا، اب کہتے ہیں وہ ریگولرائزیشن کے مستحق ہیں۔ مدعاعلیہان پنجاب ریگولرائزیشن ایکٹ2018کے تحت ریگولرائزیشن کے اہل نہیں، مدعاعلیہان کنٹریکٹ ملازم ہیں۔ اتھارٹی کاکوئی مستقل ملازم نہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ سیکشن 11کے تحت کوئی حکم جاری نہیں ہوا۔ بینچ نے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری فیصلہ کالعدم قراردے دیا۔ جبکہ بینچ نے متین احمد فاروقی کی جانب سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اوردیگر کے توسط سے حکومت پاکستان کے خلاف پروموشن کے معاملہ پردائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد رمضان خان بطور وکیل پیش ہوئے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ فارن الائونس کس کوملتا ہے، جب الائونس کااعلان ہواتودرخواست گزارریٹائرڈ ہوگئے تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ درخواست گزارنے کب پہلی مرتبہ مطالبہ کیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 2019میں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل 2016 میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جوسوال پوچھے ہیں اس کاجواب نہیں دیتے یہ رمضان صاحب آپ کی بڑی خوبصورتی ہے، آپ بھی دیگر لوگوں کی طرح سروسز ٹربیونل چلے جاتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ درخواست گزار اپ گریڈیشن کامطالبہ نہیں کررہے ان کی ریگولر پروموشن نہیں ہوئی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ٹربیونل جانا چاہتے ہیں توجاسکتے ہیں، چارسال تاخیر سے ہائی کورٹ گئے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ نئے ،نئے کیس اِدھر بناتے ہیں، نئی چیزیں نہیں بنانی، جوچیزپیچھے سے لے کرآئے ہیں اسی کوآگے لے کرچلناہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ آپ صرف الائونسز مانگ رہے ہیں اپ گریڈیشن نہیں مانگ رہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ درخواست گزار فارن الائونس مانگ رہے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ رمضان میں رمضان کی درخواست خارج کرنا مشکل ہوگا اس لئے درخواست گزار پہلے ٹربیونل چلے جائیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار متبادل دادرسی حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لئے درخواست واپس لینے کی بنیادپرخارج کی جاتی ہے۔ بینچ نے سیکرٹری فنانس ڈویژن ، حکومت پاکستان ، اسلام آباد کی جانب سے زاہد حسین اوردیگر کے خلاف سروس کے معاملہ پردائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان پیش ہوئے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ نے مسکراتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اسٹیپبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی بات کررہے ہیں اس کاکیا کردار ہے۔ چوہدر ی عا مررحمان کاکہنا تھا کہ یہ وزیر اعظم کی منظوری سے نوٹیفیکیشن جاری ہوا جو کہ درست ہے۔چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ 21مارچ2021کے آفس میمورینڈم کے تحت ہی سارے کلیم چل رہے ہیں۔چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ عدالت فیصلے پرعملدرآمد کے حوالہ سے حکم امتناع جاری کرے۔ عدالت نے درخواست پر ،مدعاعلیہان کونوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک اسٹیٹس کوبرقراررکھنے کاحکم دے دیا۔ بینچ نے مزیدسماعت 16اپریل تک ملتوی کردی۔