امریکی عدالت نے بھارتی اسکالر بدر خان کی ملک بدری روک دی

واشنگٹن (صباح نیوز)ایک امریکی جج نے ایک اعلی امریکی یونیورسٹی میں بھارتی سکالر بدر خان سوری کی ملک بدری کو روک دیا، جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی  تنظیم  حماس سے مبینہ تعلق کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ سوری کو ملک بدر نہ کرنے کا عارضی حکم ورجینیا میں امریکی ڈسٹرکٹ جج پیٹریشیا جائلز نے جاری کیا۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق، یہ حکم مزید کسی نئے عدالتی حکم تک نافذ رہے گا۔جارج ٹاون یونیورسٹی کے معروف ایڈمنڈ اے والش اسکول آف فارن سروس میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو سوری اس وقت لوزیانا میں زیر حراست ہیں۔

امریکی محکمہ داخلہ کا الزام ہے کہ سوری نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر حماس کے پروپیگنڈے کو پھیلایا، جس سے امریکی خارجہ پالیسی کو خطرہ لاحق ہے۔ برطانوی نیوز ایجنسی  کے مطابق سوری کے وکیل نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، “ڈاکٹر بدر خان سوری کو پیر کی رات ان کے اہل خانہ سے جدا کرنے کے بعد سے ہونے والی یہ پہلی مناسب کارروائی ہے۔” وکیل نے پہلے کہا تھا کہ سوری کو ان کے فلسطینی حامی خیالات اور ان کی اہلیہ کے فلسطینی تعلق کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

امریکن سول لبرٹیز یونین نے بھی سوری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہیں لوزیانا منتقل کرنے سے پہلے “متعدد امیگریشن حراستی مراکز میں منتقل کیا گیا”۔بھارت میں پیدا ہوئے، سوری نے 2020 میں نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلیکٹ ریزولوشن سے پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان کی ڈاکٹریٹ کے مقالے کا موضوع تھا: عبوری جمہوریت، منقسم معاشروں اور امن کے امکانات: فغانستان اور عراق میں ریاست کی تعمیر کا ایک مطالعہ۔ اس میں تنازعات کا شکار ملکوں میں جمہوریت کی تعمیر کی راہ میں حائل چیلنجز کا جائزہ لیا گیا ہے۔سوری نے پاکستان، بلوچستان، ایران، ترکی، شام، لبنان، مصر اور فلسطین سمیت تنازعات والے علاقوں پر وسیع تحقیق کی ہے۔ ان کا کام بالخصوص مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں مذہب، تشدد، امن، اور نسلی تنازعات پر مرکوز ہے۔ وہ اس وقت مذہبی طور پر متنوع معاشروں میں تعاون کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور ان چیلنجز کا حل تلاش کرنے کے حوالے سے ایک پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔سوری اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ میں ہیں اور ان کی شادی غزہ میں پیدا ہونے والے ایک امریکی شہری سے ہوئی ہے۔

ان کی اہلیہ مفیز صالح نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے صحافت میں بیچلر کی ڈگری اور نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔یہ مقدمہ فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں سے منسلک غیر ملکیوں کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے وسیع کریک ڈاون کے درمیان سامنے آیا ہے۔ شہری حقوق اور تارکین وطن کی وکالت کرنے والے گروپوں نے انتظامیہ پر سیاسی اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ان قوانین کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے، جن کا استعمال شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔جریدہ پولیٹیکو نے عدالتی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ، امریکی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ سوری کے حماس کے ساتھ روابط ہیں،

جو کہ امریکہ اور کئی دیگر مغربی ممالک کی طرف سے دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد فلسطینی گروپ ہے۔یہ پیش رفت ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کولمبیا یونیورسٹی کی طالبہ رنجنی سری نواسن کے اسٹوڈنٹ ویزا کی حالیہ منسوخی کے بعد ہوئی ہے۔  بھارتی طالبہ رنجنی نے امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کے ذریعہ گرفتاری کے خوف سے 11 مارچ کو “خود کو ڈی پورٹ” کرنے کا فیصلہ کیا۔اس ماہ کے اوائل میں امریکی حکام نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو بھی فلسطینی حامی مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کیا تھا۔ خلیل، جنہیں لوزیانا منتقل کر دیا گیا ہے، نے اپنی حراست کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔