عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک اہم سیاسی اور سماجی تنظیم ہے، جو 1964 میں ‘موئے مقدس’ تحریک کے دوران قائم کی گئی تھی۔ اس کے بانی میر واعظ مولوی محمد فاروق تھے، جنہیں 21 مئی 1990 کو سرینگر میں انکی رھائش گاہ پر نامعلوم مسلح افراد ( انڈین ایجنسیوں) کے ھاتھوں شہید کردیا گیا تھا وہ تحریک آزادی کشمیر کے نامور مذھبی اور سیاسی راھنما تھے اور کشمیریوں کے حقوق کے لئے سرگرم عمل تھے۔ انکی شہادت کے بعد انکے بیٹے عمر فاروق کو 17 سال کی عمر میں میر واعظ کشمیر کے منصب پر فائز کیا گیا تھا مظفرآباد میڈیکل کالج بھی ان ھی کے نام سے موسوم ھے عوامی ایکشن کمیٹی کے موجودہ سربراہ یہی میر واعظ عمر فاروق ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا مقصد عدم تشدد اور جمہوری طریقوں سے کشمیری عوام کے حقوق کی نمائندگی کرنا اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا پر امن حل تلاش کرنا ہے۔
11 مارچ 2025 کو بھارتی حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) کے تحت پانچ سال کی پابندی عائد کی۔ حکومت کا الزام ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کی حمایت، بھارت مخالف بیانیے کی ترویج، اور علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں ملوث رہی ہے۔ مزید برآں، تنظیم پر تشدد بھڑکانے، بھارتی ریاست کے خلاف عدم اطمینان کو فروغ دینے، اور مسلح مزاحمت کی حوصلہ افزائی کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق، اے اے سی کے رہنماؤں کے خلاف بغاوت، غیر قانونی اجتماع، اور تشدد پر اکسانے جیسے متعدد فوجداری مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس اور دیگر کشمیری تنظیموں نے اس پابندی کی شدید مذمت کی ہے، اسے کشمیریوں کی سیاسی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق نے اس اقدام کو کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے اور بے اختیار کرنے کی پالیسی کا حصہ قرار دیا ہے، جو 2019 سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حق کی آواز کو طاقت کے ذریعے دبایا تو جا سکتا ہے، لیکن اسے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ھمارے ھاں اسی طرح کے نام سے موسوم ایک جائینٹ عوامی ایکشن کمیٹی بھی ھے جس کے سربراہ بھی ایک مہاجر فیملی کے چشم و چراغ شوکت نواز میر ھیں اس پس منظر کے باوجود انہیں یہ توفیق نہیں ھوئی کہ وہ اس موقع پر بھارتی اقدام کی مذمت کے لئے کوئی رسمی احتجاج ھی ریکارڈ کرا لیتے۔
ھمارے ھاں جائنٹ ایکشن کمیٹی کو زیادہ شہرت آزاد کشمیر میں آٹے اور بجلی کے بلوں میں سبسڈی ملنے کے بعد ملی ھے حالانکہ اس تحریک میں اس تنظیم کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کارکنان اور عام آدمی کی بڑی حمایت شامل تھی لیکن ان سے بھی زیادہ حمایت وفاق میں وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف جو خود بھی ایک کشمیر النسل وزیراعظم ھیں اور انہیں اپنے قائد و راھنما اور برادر بزرگ محمد نواز شریف و فیملی سمیت کشمیری ھونے پر ھمیشہ فخر رھا ھے،وفاقی حکومت و دیگر حلیف جماعتوں کے قائدین اور ان سے بھی بڑھکر ھمارے ان “ھمدردوں” کی بھی تھی جو ھم کشمیریوں کے ھمیشہ پشتیبان رھے ھیں کشمیر جنکی ھمیشہ سے ریڈ لائین ھے۔پاکستان میں جتنے بھی فوجی ڈکٹیٹر گزرے ھیں جنرل ایوب خان،جنرل یحییٰ خان،ضیا الحق،پرویز مشرف ھم انکے جمہوری حکومتوں پر شبخوں مارنے کے اقدامات کی بھرپور مذمت کرتے ھیں لیکن انہوں نے بھی بحیثیت کمانڈر ان چیف پاکستان آرمی یا چیف آف آرمی سٹاف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کشمیریوں کو دی جانے والی سہولیات میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا بلکہ انہیں پاکستان کے دیگر صوبوں سے بڑھکر کشمیریوں کو سیاسی حقوق بھی دئیے اور معاشی طور بھی کشمیریوں کا بدرجہا تم خیال رکھا ھم اگر اپنی آبادی کے تناسب سے اپنے سیاسی،پارلیمانی،عدالتی انتظامی حقوق کو دیکھیں تو ھمیں دنیا کے کسی بھی حصے سے زیادہ سہولیات حاصل ھیں اسکی وجہ محض یہ ھے کہ کشمیریوں اور پاکستان کی منزل ایک ھے کشمیری پاکستان کے ترقی و استحکام کے لئے قربانیوں کی ایک لازوال تاریخ رقم کر رھے ھیں اور پاکستان بھی دنیا کا واحد ملک ھے جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی تحریک کی نہ صرف گزشتہ 78 سالوں سے مسلسل حمایت کر رھا ھے بلکہ پاکستان کی سلامتی کو جو خطرات درپیش رھتے ھیں اسکی بنیادی وجہ بھی کشمیر ھی ھے اور پاکستان اپنی سلامتی کو داؤ پر لگا کر ھمیشہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ھے۔کشمیر اور پاکستان لازم و ملزوم ھیں وفاقی حکومت نے نہ صرف اس سبسڈی کے لئے 23 ارب سے زاھد فنڈز فراہم کئے بلکہ ھمیشہ آزاد جموں وکشمیر کی تعمیر و ترقی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ابتدائی طور پر تو سبسڈی کے نام پر جاری تحریک احتجاج اور مطالبات کا یہ سلسلہ بڑا مختصر اور قلیل تعداد سے شروع ھوا اس میں تاجروں کی شمولیت سے شٹر ڈاؤن اور ٹرانسپورٹروں کی شمولیت سے پہیہ جام کا سلسلہ شروع ھوا بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی کمک سے اس احتجاج نے ایک تحریک کا رخ حاصل کیا اور اپنے اھداف حاصل کئے۔ لیکن معمولی معمولی واقعات کی آڑ میں ھر مہینے دو مہینے بعد پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کی دھمکیوں سے معمولات زندگی میں مزاحمت کا یہ سلسلہ جاری رھا تو اس سے یہ ریاست ترقی معکوس کی جانب لڑھک جائے گی اور اسے پھر پاکستان کے کمزور معاشی حالات کے باعث اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا بہت مشکل ھو جائے گا۔شہریوں کے آئینی، سیاسی،جمہوری حقوق اور حق احتجاج و حق اظہار رائے کا احترام اپنی جگہ بلکل مسلمہ ھے اور ھمارا آئین اسکی مکمل حفاظت اور تحفظ فراھم کرتا ھے حکومتوں کے خلاف احتجاج پر تحدید کی قطعاً حمایت مطلوب و مقصود نہیں ویسے بھی آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت ھر وقت اس موقع کی تلاش میں رھتی ھے کہ وہ لوگوں کو مشتعل کرکے انہیں احتجاج پر مجبور کرے لیکن یہ احتجاج یہ شٹر ڈاؤن یہ پہیہ جام عام عوام کی معاشی جدوجہد میں مزاحم ھو جاتا ھے اس کا بھی خیال رکھنا ضروری ھے تاکہ ھمارے احتجاج سے معیشت کا پہیہ نہ رکے۔
یہ کس قدر ستم ظریفی ھے کہ مقبوضہ کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی پر پانچ سالوں کے لئے پابندی لگائی گئی لیکن یہاں کی جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی حالانکہ اس کے سربراہ شوکت نواز میر بذات خود ایک مہاجر فیملی سے تعلق رکھتے ھیں اور اس بارے احتجاج ریکارڈ کرانے اس وقت تک کوئی کال نہیں دی گئی اس بے حسی اور چشم پوشی کا مظاھر نہ صرف ایکشن کمیٹی کی طرف سے کیا گیا بلکہ دیگر سیاسی، سماجی اور مذھبی جماعتوں نے بھی اسی طرح کے تساہل و غفلت کا مظاھرہ کیا۔ سوائے پاکستان مسلم لیگ ن آزاد جموں وکشمیر کے جنہوں نے ممتاز کشمیری راھنما اور سابق صدر آزاد جموں وکشمیر میر واعظ محمد یوسف شاہ کی برسی کے موقع اس پابندی کے خلاف مسلم لیگ ن کے مرکزی راھنما سابق صدر مسلم لیگ ن سابق وزیراعظم آزاد جموں و راجہ محمد فاروق حیدر خان نے نہ صرف اس اقدام کی بھرپور مذمت کی بلکہ آزاد حکومت حکومت کی طرف سے بھی اس غفلت مجرمانہ پر نوٹس لیا کہ صدر، وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر وزراء حکومت سمیت اس اھم تقریب میں شامل ھو کر اس موقعے پر اس پار کے کشمیریوں کے لئے کوئی پیغام نہ دیکر انہیں مایوس کیا۔
لیکن جائینٹ ایکشن کمیٹی کی زمہ داری اس لحاظ سے زیادہ بنتی تھی کہ وہ اپنی ھم نام تنظیم پر بھارتی حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی پر بالکل خاموشی کا مظاھرہ کیا اور دوسری طرف عوام کو رمضان المبارک اور آخری عشرے میں بھی احتجاج اور پہیہ جام و شٹر ڈاؤن کی دھمکیاں یہ حکومت کے بجائے عوام کی تکلیف کا موجب ھوتی ھیں
آزاد جموں وکشمیر کو تحریک آزادی کشمیر کی بیس کیمپ کی حیثیت حاصل ہے ھمیں اپنے مسائل اور حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کے ساتھ ساتھ بلکہ ترجیحی طور
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکام کی جانب سے سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف جاری کارروائیوں کی بھرپور مذمت کرتے رہنے چائیے اور دنیا کو ان مظالم سے آگاہ رکھنے کے لئے سرگرم عمل رھنا چاھئے ۔ مختلف ذرائع کے مطابق، 5,000 سے زائد کشمیری سیاسی رہنما اور کارکنان بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور دیگر شامل ہیں۔
2024 کے دوران، بھارتی فورسز نے 3,492 افراد کو گرفتار کیا، جن میں حریت رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، طلباء، وکلاء اور خواتین شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر پر کالے قوانین ‘پبلک سیفٹی ایکٹ’ اور ‘یو اے پی اے’ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
حال ہی میں، 12 سے زائد کشمیری سیاسی نظر بندوں کو سرینگر سینٹرل جیل، جموں کی کوٹ بھلوال جیل اور راجوری ڈسٹرکٹ جیل سے ہریانہ اور اتر پردیش کی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ان نظر بندوں میں جموں و کشمیر مسلم لیگ کے رہنما عبدالاحد پرہ، عبدالرشید وانی، مدثر احمد، شوکت گنائی، اسحاق احمد اور غلام محمد شامل ہیں۔
ان نظربندوں کو دور دراز کی بھارتی جیلوں میں منتقل کرنے کا مقصد انہیں ان کے اہل خانہ سے دور رکھ کر مزید ذہنی اذیت دینا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے ان کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات کشمیریوں کے سیاسی عزم کو توڑنے کے لیے کیے جا رہے ہیں، لیکن بھارت اس طرح کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے قائم مقام چیئرمین محمود احمد ساغر نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرلز کے نام خط میں کشمیری سیاسی قیدیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ نظر بندوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
