چاند کا قضیہ…احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

کیوں نہ آج منہ کا مزہ بدلنے کو کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں ہو جائیں۔
ہمارے ہاں عموماً ہر سال رمضان یا شوال سے متعلق ’چاند کا قضیہ‘ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔مگرہم توآج چاند کا کوئی اور ہی قضیہ لیے بیٹھے ہیں۔
نویں جماعت میں تھے جب ۱ ۲ جولائی ۱۹۶۹ء کو دنیا بھر میں یکایک غل مچ گیا کہ ۰ ۲جولائی کوامریکا چاند پر اُتر گیا۔ ہمیں یقین ہوا ہم کو اعتبار آیا کہ جوملک ہیرو شیما، ناگا ساکی اور ویت نام وغیرہ میں دہشت گردی پر اُتر سکتا ہے وہ چاند پر کیوں نہیں اُتر سکتا؟ مگر بہتیرے اُس وقت بھی دُبدھا میں تھے، اور بہت سے آج بھی ہیں۔
آج کی بات بلکہ اس صدی کی بات یوں سمجھیے کہ ۵ ۱فروری ۲۰۰۱ء کو امریکا ہی کے فاکس ٹی وی نے ایکاایکی اپنے خوابِ سرشاری سے اُٹھ کر اپنی نشریات میں یہ ہنگامہ خیز سوال اُٹھا دیا کہ
”کیا ہم واقعی چاند پر اُترے ہیں؟“(پچھلی صدی میں)
جواب میں کہا گیا:
”نہیں! بس لندن کے ایک اسٹوڈیو میں کچھ جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیا گیا۔ یوں امریکا نے پوری دنیا کو بے وقوف بنایا۔ یعنی انسان کے چاند پر اُترنے کا فقط ڈراما رچایاگیا۔ اپالو-۱۱ جو ۱۶ جولائی ۱۹۶۹ء کو خلا میں بھیجا گیا تھا آٹھ دن زمین کے مدار کے گرد چکر لگا کر واپس آگیا“وغیرہ وغیرہ۔
اس سے قبل ۱۹۹۴ء میں شائع ہونے والیAndrew Chaikin کی کتاب “A Man on the Moon” میں بھی بتایا گیا تھا کہ ”ایسا ڈراما رچانے کی منصوبہ بندی دسمبر۸ ۱۹۶ء میں بھی کی گئی تھی“۔مگر خیر، یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس قضیے سے مستقبل کے مؤرخ اور محقق کی روزی روٹی کا بندوبست ہو گیا ہے۔ہم ان دکھیاروں کے پیٹ پر لات کیوں ماریں؟
لات تو دھری نیل آرمسٹرانگ نے۔ خبروں کے مطابق تین امریکی خلاباز نیل آرم اسٹرانگ، مائیکل کولنس اورایڈوِن بز ایلڈرن ۱۶/ جولائی ۱۹۶۹ء کو اپالو گیارہ میں چاند کے مشن پر روانہ ہوئے۔چار دن بعد چاند تک پہنچ گئے۔ خلائی شٹل سے الگ ہوجانے والی چاند گاڑی’ایگل‘ چاند پر اُترگئی۔چاند گاڑی میں نیل آرم اسٹرانگ اورایڈوِن ایلڈرن سوار تھے۔ مائیکل کولنس خلائی جہاز میں بیٹھے بیٹھے چاند کے مدار میں چکر لگاتے اور تصویریں بناتے رہے۔۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کو نیل آرم اسٹرانگ کو چاند پر سب سے پہلا قدم (یعنی لات) دھرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے اترنے کے ۹ ۱ منٹ بعد ایڈوِن ایلڈرن اُترے۔ خبروں کے مطابق دونوں صاحبان تین گھنٹے تک چاند پر مٹر گشت کرتے رہے۔ پھر دونوں نے اپنے جوتے وہیں چھوڑ ے اور چاند سے ٹوکری بھر مٹی اُٹھا کر رفو چکر ہوئے۔دونوں خلاباز ۲۴ جولائی ۱۹۶۹ء کو اپنے تیسرے ساتھی سے آملے اور بالآخر بخیریت زمین پر اُتر آئے۔یوں دنیا بھر میں امریکا کی ’واہ واہ‘ یا ’بلّے بلّے‘ ہوگئی۔
انسان کے چاند تک پہنچ جانے کی خبر سے خلائی سائنس و ٹیکنالوجی ہی کی دنیا میں نہیں، شعر و ادب کی دنیا میں بھی ایک بھونچال سا آگیا۔ اس خبرسے کسی کی آگہی میں اضافہ ہوا کسی کی غفلت میں۔ کسی کے ایمان میں ترقی ہوئی اور کسی کو ہمتِ کفر مل گئی۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پروالد محترم (مولوی ابوالحسنات صدیقی مرحوم) نے ایک قطعہ کہا تھا:
اِن خلا بازوں کی حرکت دیکھیے
چھوڑ آئے اپنا جوتا چاند پر
اے پجاری چاند کے، کچھ ہوش کر
جا پڑا ہے کیسا جوتا چاند پر
اسی ضمن میں رئیس امروہوی مرحوم کا یہ قطعہ بھی یاد آگیا:
گنجِ زر کھول دیے دولتِ امریکا نے
کُرۂ ماہ کا سودا جو سمایا سر میں
چاند کی سطح سے اے دوست خلائی فاتح
خاک لائے ہیں کوئی ڈیڑھ ارب ڈالر میں
اس فرضی یا حقیقی تسخیر ماہ کے بعد کہے گئے اشعار تو بے شمار ہیں بلکہ آج تک کہے جارہے ہیں۔ مگر روز مرّوں اور محاوروں کی دنیا میں بھی ایک تازہ بہار آگئی۔ وہ دانشور جو قوم کو طعنے تشنے دیتے رہنے ہی کو اپنی طرف سے ایک قیمتی قومی تحفہ اور قومی خدمت تصور فرماتے ہیں، اُن کے بے عمل ہاتھوں میں بھی،اس خبر پر ’ایمان بالغیب‘ لانے کے بعد، ایک نیا ہتھیار آگیا۔ بات بات پر کہا جانے لگاکہ
امریکا والے چاند سے ہو کر بھی آ گئے
ہم کو تو گولیمار کا رستہ نہیں ملا
ایسا ہی ایک طعنہ اُس وقت بھی ملا جب ہم ’ادارۂ فراہمی برق کراچی‘ المعروف بہ KESC میں برقی آلات کی تنقیح سیکھنے کو زیر تربیت تھے۔نژادِ نو کو کیا خبر کہ کسی زمانے میں KDA’ادارۂ ترقیاتِ کراچی‘ کہلاتا تھا،KMCکو ’بلدیہ عظمیٰ کراچی‘ کہا جاتا تھااور KW&SB کو ’ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب‘۔
ہمارے برقی ادارے میں مشہور شاعر و ادیب شیخ ایاز کے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹا ’باس‘ تھا۔ یہ ۱۹۷۶ء کا ذکر ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی شیخ ایاز مرحوم اپنے الحادی نظریات سے تائب نہیں ہوئے تھے۔ یہ معاملہ تو یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک کے پاش پاش ہونے کے بعد پیش آیا۔ شیخ ایاز کے صاحبزادے اِس گنہگار کالم نگار کو ’مولوی‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے(نماز پابندی سے پڑھنے کی پاداش میں)۔ایک صبح چیف انجینئر شیخ صاحب اپنی مخصوص زبان اور مخصوص لب و لہجے میں، بھری محفل میں، بآوازِ بلندبولے:
”اوئے مولوی! دیکھ، اُدھرانسان چاند پر پہنچ گیا ہے اوراِدھرتیرا مُلّا ابھی تک استنجا کے مسائل بیان کر رہا ہے“۔
حاضر باشوں نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور بڑی حقارت سے اس حقیر کی طرف دیکھا۔ایک ساتھی نے پسلی میں کہنی مار کر کہا:
”اس موقعے پرتمھاراچپ رہنا ٹھیک نہیں،تگڑا سا جواب دو“۔
شہ پا کر عرض کیا:
”شیخ صاحب! انسان چاند پر پہنچ تو گیاہے، مگرکیااس خوشی میں زمین پر اس نے پیشاب پاخانہ کرنا چھوڑ دیا؟“
اس پر ہمارے ساتھیوں نے بھی ایک زبردست قہقہہ لگایا۔سو،اس قہقہاتی قوت کی کمک سے توانا ہوکر یہ پُر عزم اعلان کیاکہ
”جب تک انسان پیشاب پاخانہ کرتارہے گا، ہمارا مُلا استنجا کے مسائل بیان کرتا رہے گا“۔
اعلان سنتے ہی شیخ صاحب نے فوراً ہمیں ”بوائلر کنٹرول پینل کے انسٹرومنٹ چیک“ کرنے کے لیے روانہ کردیا۔
جس زمانے میں پوری دنیا میں ’کورونا‘شدت سے پھیلا ہوا تھا ایک رات ایک ڈاکٹر دوست کا فون آیا۔ یہ خاصے مُلّا ٹائپ دوست ہیں۔ موصوف امریکا میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کچھ عرصے تک ایک امریکی اسپتال میں طبی مشق کرتے رہے۔ پھر پاکستان واپس آئے اور یہاں آکر ایک مشہور اور مہنگے اسپتال میں دادِ طبابت دینے لگے۔ڈاکٹر صاحب نے اُس رات پہلے فون پر قہقہہ لگایا پھر ہمیں بتایا:
”کل رات میرے ایک امریکی ’ساتھی ڈاکٹر‘ نے بہت طویل وڈیو کال کی۔وہ اپنے مریضوں کو حفظانِ صحت کے معیاری طریقے سکھانے کے لیے مجھ سے وضو، استنجا اور غسل کے طریقوں کی تفصیل پوچھ رہے تھے۔ یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ تمھارے دین میں ایسا کرنا کب کب لازم ہوتا ہے؟“
اللہ جانے ہمارے چیف انجینئر شیخ صاحب اب کہاں ہوں گے؟ کہیں چاند پر نہ ہوں۔ آس پاس ہوتے تو اُن کو بھی ہم خوشی خوشی بتاتے کہ
”لو بھئی شیخ جی! چاند تک پہنچ جانے کا دعویٰ کرنے والے بھی اب ہمارے ”مُلّا“ سے استنجا کے مسائل سیکھ رہے ہیں“۔
 ٭٭