اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے بچوں کے اغوااوراسمگلنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جس کا کام ہے اسی نے کرنا ہے، ہم ہر کام خود نہیں کر سکتے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک میں قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔
جواب کی کاپی حاصل کرنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی ذمہ داری ہے، کیا چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہم کریں۔مسئلہ یہ ہے کہ محکمہ کام نہیں کرتا جبکہ آئینی بینچ نے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کے متعلقہ نمائندے کو آئندہ سماعت پر بریفنگ کے لئے طلب کر لیا۔ملک بھر میں بچوں کے اغوااوراسمگلنگ کے حوالہ سے ضیاء احمد اعوان اور روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر محمد علی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس نعیم اخترافغان ، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔درخواستوں میں وزارت داخلہ اور وزارت بین الصوبائی رابطہ اوردیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔دوران سماعت عدالت نے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کے متعلقہ نمائندے کو آئندہ سماعت پر بریفنگ کے لئے طلب کر لیا۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل آفتاب عالم یاسر مئوقف اختیار کیا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ اٹارنی جنرل تمام آئی جیز سے ملاقات کریں، آئی جیز کے ساتھ آج تک کوئی ملاقات نہیں کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمن نے کہا کہ آئی جیز کے ساتھ اٹارنی جنرل کی ملاقات ہوئی تھی۔اس پر وکیل نے کہا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے ادارے تو قائم ہیں لیکن کام نہیں ہو رہا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جس کا کام ہے اسی نے کرنا ہے، ہم ہر کام خود نہیں کر سکتے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ قوانین تو موجود ہیں، لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا۔درخواست گزار کے وکیل آفتاب عالم یاسر کاکہنا تھا کہ بینچ حکم دے کہ حکومت کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب کی کاپی مجھے فراہم کی جائے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ جواب کی کاپی حاصل کرنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی ذمہ داری ہے، کیا چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہم کریں۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔