اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے سکولوں میں قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دینے کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ پالیسی معاملہ ہے حکومت نے اقدام اٹھانا ہے۔ وفاقی حکومت نے قرآن مجید کی تعلیم کے لیے اقدامات شروع کر دیئے ہیں کیا بچ گیا ہے، حکومت کو اپنا کام کرنے دیں، عدالت کیوں مداخلت کرے، درخواست گزارنے کیااستدعا کی ہے، درخواست گزارکے کیادلائل ہیں، عدالت سے کیاچاہتے ہیں، حکومت نے عملدرآمد کردیا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے پہلے مادری زبان سکھائی جاتی ہے پھر اردو، پھر انگلش، پھر چینی، کون کون سی زبانیں بچے کوسکھائیں گے۔ سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح نظام چل رہا ہے اور کس طرح ہم نے تعلیم دینی ہے۔
جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم سب صوبوں سے آئے ہیں ہمیں پتا ہے کیا ہوتا ہے پہلے تکنیکی مہارت کے ادارے قائم کرلیئے جاتے ہیں اورلوگوں کوبھرتی کرلیا جاتا ہے اورپھر انہیں تنخواہ نہیں دیتے ، بس ادارے رہ جاتے ہیں۔جبکہ اسکولوں میں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دینے کے معاملے پروفاق، پنجاب اور بلوچستان حکومتوں نے جواب جمع کروادیاتاہم صوبہ سندھ اور صوبہ خیبرپختونخوا حکومتوں کی جانب سے جواب نہیں کروایا گیا ۔ بینچ نے سندھ اور خیبرپختونخوا حکومتوں کودوبارہ جواب جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔جبکہ بینچ نے وزارت خزانہ کی جانب سے دائر کیس میں مدعا علیہ کو 87671امریکی ڈالرز کامعاوضہ اداکرنے کے معاملہ پر اصل رقم اداکرنے کاحکم دیتے ہوئے منافع کی ادائیگی کے حوالہ سے جاری حکم واپس لے لیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس نعیم اخترافغان،
جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اورجسٹس عامر فاروق پرمشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے بدھ کے روز مختلف مقدمات کی سماعت کی۔ بینچ نے ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ملک انیق علی کھٹانہ کی جانب سے اسکولوں میں قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دینے کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت میں وفاق، پنجاب اور بلوچستان حکومتوں نے اپنے جوابات جمع کروا دیے جبکہ سندھ اور خیبرپختونخوا حکومت نے جوابات جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان، حکومت پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل وسیم ممتاز ملک اور بلوچستان حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل محمد ایازخان سواتی نے جواب جمع کروایا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ سندھ اور خیبرپختونخواکی جانب سے جواب جمع نہیں ہوا، دونوں صوبوں سے کون پیش ہورہا ہے۔ اس پر کے پی کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے وکیل نے ویڈیولنک کے ذریعہ پیش ہوکرکہا کہ انہوں نے محکمہ سے جواب مانگا تھا تاہم ابھی تک جواب موصول نہیں ہواجونہی جواب موصول ہواعدالت میں جمع کروادیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جواب کے مطابق وفاقی حکومت نے قرآن مجید کی تعلیم کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں،کیا بچ گیا ہے، حکومت کو اپنا کام کرنے دیں، عدالت کیوں مداخلت کرے، درخواست گزارنے کیااستدعا کی ہے، درخواست گزارکے کیادلائل ہیں، عدالت سے کیاچاہتے ہیں، حکومت نے عملدرآمد کردیا ہے۔ درخواست گزار انیق علی کھٹانہ نے کہا کہ حکومتیں کام کر رہی ہوتیں تو 5 سال سے عدالتوں میں چکر نہ لگا رہا ہوتا،لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا اس پر چارسال عمل نہیں ہوا، پھر میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ، پھر سندھ اور پھر بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا، قانون کے مطابق وہ ترجمہ رائج ہو سکتا ہے جو متفقہ ہو، وفاقی حکومت کی جانب سے ترجمہ کی منظوری دینا بھی لازمی ہے، کسی صوبے یا وفاق نے نوٹیفکیشن منسلک نہیں کیے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ حکومت کواپنا کام کرنے دیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے پہلے مادری زبان سکھائی جاتی ہے پھر اردو، پھر انگلش، پھر چینی، کون کون سی زبانیں بچے کوسکھائیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ پالیسی معاملہ ہے حکومت نے اقدام اٹھانا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 31 واضح ہے کہ قرآن کی تعلیم اور اسلامیات الگ ہیں۔بعد ازاں عدالت نے سندھ اور کے پی حکومت سے قرآن مجید کی لازمی تعلیم کے معاملے پر جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔جبکہ بینچ نے زندگی ٹرسٹ کراچی کی جانب سے سیکرٹری وزارت قانون وانصاف کے توسط سے وفاقی حکومت کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سکول کی سطح پر تکنیکی مہارت کی تعلیم دی جائے۔ درخواست گزار کی جانب سے سلمان اکرم راجہ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان پیش ہوئے۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ سکل کی بنیاد پرتعلیم دینے کے حوالہ سے نصاب بن گیا ہے تمام صوبوں نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے، تحریری جواب جمع کروانے کے لئے وقت دے دیں۔
جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ تحریری طور پر جواب جمع کروائیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ جامع جواب جمع کروائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پالیسی ہونی چایئے ، چاروں صوبوں کوآن بورڈ لیں، سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح نظام چل رہا ہے اور کس طرح ہم نے تعلیم دینی ہے۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ چاروں صوبوں کو آن بورڈ لے کر پالیسی بنائیں گے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ہم سب صوبوں سے آئے ہیں ہمیں پتہ ہے کیا ہوتا ہے پہلے تکنیکی مہارت کے ادارے قائم کرلیئے جاتے ہیں اورلوگوں کوبھرتی کرلیا جاتا ہے اورپھر انہیں تنخواہ نہیں دیتے ، بس ادارے رہ جاتے ہیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوجواب جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی جبکہ بینچ نے حکومت پاکستان کی جانب سے وزارت خزانہ کے توسط سے محمد اقبال کے خلاف 78ہزار671امریکی ڈالرز کامعاوضہ اداکرنے کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان پیش ہوئے جبکہ عدالتی معاون آغا محمد علی بھی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔
چوہدری عامر رحمان کاسماعت کے آغاز پر کہنا تھا کہ ہم رقم اداکررہے ہیں ، سمری ای سی سی کوبھجوادی ہے، منافع دینے کے معاملہ پر ہم نظرثانی کی استدعا کررہے ہیں، اصل رقم دے رہے ہیں۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ 25جون2014کاٹرائل کورٹ کافیصلہ ہے اس سے مجھے شکایت ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ماتحت عدالتوں نے نقصان کاتخمینہ لگایا ہے کہ نہیں۔ چوہدر ی عامررحمان کاکہنا تھا کہ جیل درخواست اور ازخود نوٹس کے نتیجہ میں یہ معاملہ سامنے آیا تھا، کمرشل کورٹ کاحکم کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ آئینی بینچ نے سپریم کورٹ کے 15دسمبر2021کے حکم میں ترمیم کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو اصل رقم اداکرنے کاحکم دیتے ہوئے منافع نہ دینے کی استدعا منظور کرلی۔
عدالت کاکہنا تھا کہ ادائیگی موجودہ امریکی ڈالر کے ریٹ کے حساب ہوگی۔ عدالت نے درخواست نمٹادی۔جبکہ حکومت کی جانب سے بجلی بلوں میں بے تحاشہ ٹیکسوں کے نفاذ اور اوربجلی بلوں میں نیپراکی جانب سے بلاجواز اضافہ کے خلاف سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، اختراقبال ڈار ، محمد اسد منظور بٹ، اشباکامران، امتیاز گل، سید حسام الحق اوردیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت بغیر کاروائی ملتوی کردی گئی۔ درخواست گزار اقبال ڈار کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ جبکہ بینچ نے محمد حمزہ شہبازشریف کی جانب سے چوہدری پرویز الہیٰ کے خلاف سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار میر دوست محمد مزاری کی رولنگ کے معاملہ پر دائر درخواست پر بھی سماعت بغیر کاروائی ملتوی کردی۔ وکلاء کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔