اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں سینیٹری ورکرز اورسویپرز کی نوکریاں غیر مسلموں کے لئے مخصوص کرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان درخواست گزار وکیل خاتون کی جانب سے کالا کوٹ پہن کر بینچ کے سامنے پیش ہونے اور بینچ کے سامنے اونچی آواز کرنے پرشدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ وکیل کی وردی میں اس عدالت میں پیش نہیں ہوسکتیں، کیاآپ کواخلاقیات کاپتا نہیں، وکیل ذاتی حیثیت میں کالا کوٹ پہن کر پیش نہیں ہوسکتا، آپ کی آواز بلند ہوتی ہے توپتا چلتا ہے کہ آپ سپریم کورٹ کی وکیل نہیں، اتنے سینئر وکیل پیش ہوئے کیاکسی نے اتنی آواز بلندکی ہے،سپریم کورٹ توکیا سول جج کی عدالت میں وکیل ذاتی حیثیت میں پیش ہوتے ہوئے کالا کوٹ پہن کرپیش نہیں ہوسکتا، درخواست گزار سیاسی تقریر کررہی ہیں۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہم درخواست میں کی گئی استدعا سے باہر نہیں جاسکتے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس ہاشم خان کاکڑ اورجسٹس عامر فاروق پر مشتمل5رکنی آئینی بینچ نے سینیٹری ورکرز اورسویپرز کی نوکریاں غیر مسلموں کے لئے مخصوص کرنے کے خلاف مس میری جیمز گل کی جانب سے وفاق پاکستان کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار وکیل ہائی کورٹ مس میری جمز گل وکیل کے لباس میں بینچ کے سامنے پیش ہوئیں اور دلائل دیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اصول ہائی کورٹ نے پہلے ہی طے کردیئے عملدرآمد کے لئے ہائی کورٹ چلے جائیں، آئینی سوال پہلے ہی حل ہوچکا ہے اس طرح کے اشتہارات دوبارہ نہیں ہوں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم درخواست میں کی گئی استدعا کے باہر نہیں جائیں گے، پہلے ہی اشتہارات کے حوالہ سے یہ عدالت فیصلہ جاری کرچکی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فیصلے سے معاملہ حل ہوچکا ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہم درخواست میں کی گئی استدعا سے باہر نہیں جاسکتے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سی ایس پی افسر بھی ہیں، کلیٹر کسٹم بھی ہیں، ایم این ایز ، سینیٹرزاورایم پی پیز مخصوص نشستوں پر بھی آتے ہیں اور میرٹ پر بھی آتے ہیں،اقلیتی برادری کے لو گ سویپر کی پوسٹ پر پلائی ہی نہ کریں توخود بخود یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔
جسٹس امین الدین خان نے درخواست گزار خاتون سے استفسار کیا کہ کیا آپ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں، کیا آپ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں،کیاآپ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں۔ اس پر خاتون کاکہنا تھا کہ میں ہائی کورٹ کی وکیل ہوں اور ذاتی حیثیت میں پیش ہورہی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاخاتون درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ وکیل کی وردی میں اس عدالت میں پیش نہیں ہوسکتیں، کیاآپ کواخلاقیات کاپتا نہیں، وکیل ذاتی حیثیت میں کالا کوٹ پہن کر پیش نہیں ہوسکتا، آپ کی آواز بلند ہوتی ہے توپتا چلتا ہے کہ آپ سپریم کورٹ کی وکیل نہیں، اتنے سینئر وکیل پیش ہوئے کیاکسی نے اتنی آواز بلندکی ہے،سپریم کورٹ توکیا سول جج کی عدالت میں وکیل ذاتی حیثیت میں پیش ہوتے ہوئے کالا کوٹ پہن کرپیش نہیں ہوسکتا، درخواست گزار سیاسی تقریر کررہی ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔جبکہ بینچ نے شہاب اوستو کی جانب سے سندھ میں صاف پینے کے پانی کی فراہمی کے معامل پرٹربیونلز کے قیام کے حوالہ سے دائر درخواست خارج ہونے کے خلاف بحالی کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار ویڈیو لنک کے زریعہ کراچی رجسٹری سے پیش ہوئے۔ شہاب اوستوکاکہنا تھا کہ میں ہائی کورٹ کاوکیل ہوں مجھے پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ آپ وکیل کے لباس میںذاتی کیس میں پیش نہیں ہوسکتے، آئندہ سماعت پراسلام آباد آئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی درخواست 77دن زائدالمعیاد ہے اس حوالہ سے بتائیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں کہ ہردرخواست گزار کوکیس کی سماعت کابتائے، یہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ جاسکتے ہیں کیوں سپریم کورٹ آئے ہیں، ہائی کورٹ چلے جائیں۔
جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم زائدالمعیاد کے حوالہ سے ہم مطمئن نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست 77دن زائد المعیاد ہے، درخواست گزار متبادل دادرسی حاصل کریں۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے سابق ضلع ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی جانب سے کنٹونمنٹ بورڈ کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسداللہ خان نے وزارت دفاع کی جانب سے عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کی۔را نا اسدا للہ خان کاکہنا تھا کہ متعدد مارکیز کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقہ میں بنائی گئی تھیں۔ جسٹس عامر فاروق کاکہنا تھا کہ آبزرویشن تھی کہ کنٹومنٹ کی زمین اس مقصد کے لئے استعمال نہیں ہوسکتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا یہ کنٹومنٹ کی زمین تھی یافوج کی۔ جسٹس عامر فاروق کاکہنا تھا کہ کیاکہیں لکھا ہے کہ کون سی کنٹونمنٹ کی زمین کس مقصد کے لئے استعمال ہوگی۔ رانا اسد اللہ خان کاکہنا تھا کہ عدالتی حکم پرعملدرآمد ہوگیا ہے۔ عدالت نے کیس نمٹادیا۔