11 مارچ 2025 کو ھونے والا جعفر ایکسپریس پر نام نہاد بلوچستان لبریشن آرمی کا حملہ پاکستان میں جاری دھشت گردی کی تاریخ کا سنگین ترین واقعہ ھے جسے الحمدللہ پاکستان آرمی کے مسلح جوانوں, SSG اور سکیورٹی انٹیلیجنس ایجنسیز نے بکمال مہارت اور جذبہ قربانی سے لیس فورسز نے بغیر زیادہ نقصانات کے کامیابی سے انجام دیا جس پر پاکستان آرمی کے اس آپریشن میں شامل تمام گروپس بالخصوص آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر قوم کی اتھاہ مبارکباد کے نہ صرف مستحق ھیں بلکہ قوم انہیں ھدیہ سلام پیش کرتی ھے۔
پاکستان آرمی نے ھمیشہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے میں تاریخ ساز اور لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کی ھے جس پر قوم کو فخر ھے ماسوائے ڈکٹیٹرز نے جب منتخب حکومتوں پر شبخوں مارتے ھوئے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا اس سے پاکستان آرمی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیکن جہاں تک پاکستانی افواج کا ملک کو درپیش چیلنجز کے موقع پر کردار کا تعلق ھے ھر مشکل گھڑی میں پاکستان آرمی اپنے عوام کے ساتھ نہ صرف کھڑی رھی ھے بلکہ قربانیوں کی ایک لازوال تاریخ رقم کی ھے جنرل سید عاصم منیر نے بطور چیف آف آرمی سٹاف پاکستان کی قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز خواہ مالیاتی،داخلی خارجی تذویراتی ھر موقع پر وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے شانہ بشانہ رھے ھیں سپہ سالار کا یہ کردار تاریخ میں شاندار الفاظ سے لکھا جائے گا۔
پاکستان میں دھشت گردی کی حالیہ لہر کا ایک طویل پس منظر ھے جسکا اگر جستہ جستہ اجمالی سا گراف تشکیل دیا جائے تو
یہاں 1980 کی دہائی سے لے کر 2025 تک پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات کی ایک سیریز بنتی ھے، جن میں تحریک طالبان پاکستان (TTP)، بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور دیگر شدت پسند گروہوں کے حملے شامل ہیں۔
1980 کی دہائی سے جب “افغان جہاد” کا آغاز ھوا اس کے ساتھ ھی دہشت گردی کی بنیاد رکھی گئی
افغان جنگ
(1979-1989) اور جہادی کلچر کی تشکیل
1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے افغان “مجاہدین” کی مدد شروع کی، جس سے جہادی کلچر کو فروغ ملا۔
امریکہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے مجاہدین کی مالی و عسکری مدد کی، جبکہ پاکستان میں مدارس اور جنگجو گروہوں کو مضبوط کیا گیا۔
یہ پالیسی بعد میں پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے نیٹ ورکس کے قیام کی بنیاد بنی۔
شیعہ-سنی فرقہ وارانہ دہشت گردی کا آغاز
1980 کی دہائی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان میں شیعہ اور سنی شدت پسند گروہ بننے لگے۔
سپاہ صحابہ (بعد میں لشکر جھنگوی) اور تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ جیسے گروہ سامنے آئے۔
اس عرصے میں کراچی، جھنگ، اور دیگر شہروں میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا۔
1990 کی دہائی:
دہشت گرد گروہوں کی مضبوطی
کراچی میں لسانی دہشت گردی اور ایم کیو ایم آپریشن (1992-1999)
کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ (MQM) اور دیگر گروہوں کے درمیان جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں۔
1992 میں فوجی آپریشن “کلین اپ” کیا گیا، جس کے بعد کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور بھتہ خوری میں اضافہ ہوا۔
اس دوران سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نے شیعہ کمیونٹی کے افراد کو نشانہ بنایا۔
بھارتی ایجنسی را (RAW) کی مبینہ سرگرمیوں میں اضافہ ھوا
پاکستان کے مختلف شہروں میں دھماکوں اور دہشت گرد کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کے ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آئے۔
1997 میں لاہور، کراچی، اور پشاور میں ہونے والے مختلف بم دھماکوں کے پیچھے اسی ایجنسی کے تانے بانے ملتے ھیں۔
2000 کی دہائی: القاعدہ، طالبان اور خودکش حملوں کا دور
نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ
2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، جس کے بعد القاعدہ اور طالبان کے جنگجو پاکستان میں داخل ہوئے۔
پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا، جس کے باعث شدت پسندوں نے پاکستانی ریاست کو دشمن سمجھنا شروع کر دیا۔
پاکستان کی پارلیمنٹ پر حملہ (2002)
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب خودکش حملہ کیا گیا، جس میں شدت پسند عناصر ملوث تھے۔
اس حملے کے ہیچھے بھی کالعدم تنظیموں کا ھاتھ رھا،جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے (2003)
دسمبر 2003 میں پرویز مشرف پر دو خودکش حملے کیے گئے۔
یہ حملے القاعدہ اور TTP کے نیٹ ورک کے ذریعے کیے گئے تھے۔
لال مسجد آپریشن (2007)
اسلام آباد میں واقع لال مسجد میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا، جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان (TTP) نے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی مہم کا آغاز کیا۔
بینظیر بھٹو کا قتل (27 دسمبر 2007)
راولپنڈی میں لیاقت باغ کے قریب سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کو خودکش حملے میں قتل کیا گیا۔اس سے قبل کراچی کارساز میں شہید بے نظیر بھٹو کے قافلے پر خود کش حملہ جس میں سو سے زاھد کارکنوں کی شہادت ھوئی
TTP اس حملے کا الزام لگا، جبکہ حکومتی رپورٹ میں القاعدہ کو بھی ملوث قرار دیا گیا۔
2010 کی دہائی: دہشت گردی کا عروج اور فوجی آپریشنز
مہران بیس حملہ (2011)
کراچی میں نیوی کے مہران بیس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس میں کئی سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔
حملہ آوروں نے جدید ہتھیاروں سے مسلح ہو کر نیوی کے طیاروں کو نقصان پہنچایا۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول، پشاور (16 دسمبر 2014)
TTP کے دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا، جس میں 150 سے زائد افراد، زیادہ تر بچے، شہید ہوئے۔
اس واقعے کے بعد آپریشن ضربِ عضب شروع کیا گیا، جس میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی۔
سانحہ مستونگ (2018)
بلوچستان میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں 149 افراد شہید ہوئے۔
داعش اور TTP کے دھڑے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
2020 کی دہائی میں دہشت گردی کے نئے چیلنجز درپیش رھے ھیں
کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ (2020)
بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے حملہ آوروں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا، جسےپط سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنایا۔
پشاور مدرسہ حملہ (2020)
پشاور میں ایک مدرسے میں بم دھماکہ ہوا، جس میں کئی طلباء شہید اور زخمی ہوئے۔
پولیس لائنز مسجد دھماکہ، پشاور (30 جنوری 2023)
پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش حملے میں 100 سے زائد افراد شہید ہوئے۔
مستونگ خودکش دھماکہ (29 ستمبر 2023)
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں عید میلاد النبی کے موقع پر خودکش حملہ کیا گیا۔
ہنگو مسجد حملہ (29 ستمبر 2023)
خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک مسجد میں خودکش دھماکہ ہوا۔
2024-2025 کی حالیہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور لمحہ فکریہ ھے
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، تاہم خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں TTP اور BLA کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اکوڑہ خٹک مدرسہ کا واقعہ بھی معمولی نہیں ھے اگرچہ تعداد کے اعتبار سے تو زیادہ لوگ شہید نہیں ھوئے لیکن اس مدرسے کی اھمیت کے اعتبار سے یہ بھی ایک بڑا واقعہ ھے۔
سیکیورٹی ادارے دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورکس کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن بارڈر سے ہونے والی دراندازی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے جس سے یقیناً آہنی ھاتھوں سے نبٹ لیا جائے گا۔
پاکستان میں اپریل 2022 کے رجیم چینج کے بعد سیاسی عدم استحکام، معاشی مشکلات اور سیکیورٹی چیلنجز نے قومی سلامتی کو درپیش مسائل میں اضافہ کیا ہے، جن میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، داخلی انتشار اور ملک کے اندر ایک تناؤ کی صورت پیدا کردی گئی ھے جسکا دشمن نہ صرف فائدہ اٹھا رھا ھے بلکہ دشمن کی مذموم مقاصد کی تکمیل ھو رھی ھے۔
اس میں تحریک انصاف (PTI) اور اس کی قیادت کا کردار ففتھ کالمسٹ سے بڑھ کر ملک دشمنی کا ھے ، PTI کی قیادت اور اس کے حمایتی قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بیانیہ بنا کر ملک میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اداروں کے خلاف بیانیہ سازی اور پراپیگنڈہ مہمات ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں، اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور اندرونی تقسیم کو ہوا دینے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔
پاکستان کو اس وقت یکجہتی، استحکام اور قومی مفاد میں باہمی اتفاق کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
پاکستان افواج نے اس دھشت گردی کے سد باب کے لئے نہ صرف قابو پانے میں اھم کردار ادا کیا ھے بلکہ عظیم قربانیوں کی بھی ایک لازوال تاریخ رقم کی ھے
سپہ سالار پاکستان جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان کے جوان و آفیسرز انتہائی پر عزم اور جذبہ شہادت سے سرشار دھشت گردوں کی مکمل سرکوبی کے لئے ھمہ وقت مصمم و مستعد ھیں۔ ھزاروں کی تعداد میں فوجی جوان گزشتہ دو تین سالوں میں مرتبہ شہادت سے سرفراز ھو رھے ھیں۔حالیہ واقعہ میں بھی جس مہارت سے اس سانحہ سے نبٹا گیا ھے دنیا کی تاریخ میں اسکی مثال ملنا مشکل ھے لیکن الحمد فوج نے اس کامیابی کا سہرا بھی اپنے سر سجایا ھے۔
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی قیادت میں حکومت اپنی عساکر کی پشت پر ھے اور افواج پاکستان حکومت کی ممد و معاون ھے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ھے کہ سیاستدان مل بیٹھیں اور پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نبٹنے کے لئے ایک نیا نشینل ایکشن پلان ترتیب دیں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور مکاتب فکر اس کے لئے تیار ھیں لیکن تحریک انصاف اپنے چند حواریوں کے ساتھ اس موقع پر بھی اس پلان کی تشکیل کو سبوتاژ بنانا چاھتی ھے اور عدم تعاون پر بضد و ھٹ دھرم ھے انکا یہ منفی رویہ انکے اپنے لئے بھی اور ملک کے لئے بھی نقصان دہ ھے لیکن حکومت کو اب اس دھشت گردی کے خاتمے کے لئے سخت اقدامات لینا ھونگے تاکہ جعفر ایکسپریس سے ملتے جلتے واقعات دوبارہ نہ جنم لے سکیں۔