انیس جنوری کو شروع ہونے والی عارضی جنگ بندی اسرائیل نے ختم کردی۔ منگل 18 مارچ کو سحری کے وقت ساری پٹی پر شدید بمباری سے جنگ کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈیڑھ سو افراد جاں بحق اور تین سو سے زیادہ زخمی ہیں۔اسرائیلی وزیردفاع نے بمباری کیساتھ بری فوج کو بھی پیشقدمی کا حکم دیدیا ہے۔ حسب توقع امریکہ نے اسکا الزام اہل غزہ کے سر دھردیا۔ قصر مرمریں کی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے کہا کہ مزاحمت کاروں نے قیدیوں کو رہا نہ کرکے جنگ بندی میں توسیع کے بجائے جنگ کا خود انتخاب کیا ہے۔
بمباری دوبارہ شروع کرنے کی پیشبندی کئی ہفتوں سے جاری تھی۔امن مذاکرات کیلئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکاف کے لب و لہجے میں تبدیلی سے اندازہ ہورہاتھا کہ امریکہ کو معاملے کے پرامن حل سے دلچسپی نہیں اور صدر ٹرمپ غزہ کو بزور طاقت خالی کرانےکا عزم کرچکے ہیں۔قطر سے واپس جاتے ہوئے جناب وٹکاف نے بہت دوٹوک لہجے میں دھمکی دی کہ ‘مزاحمت کار تمام قیدی فوراً رہا کردیں، ورنہ انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑیگی’۔ انھوں نے کہا کہ ‘دہشت گرد’ سمجھ رہے ہیں کہ وقت انکے ساتھ ہے، ایسا ہرگز نہیں، ہر گزرتے دن کیساتھ غزہ پر جہنم کے دروازے وا ہونے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں’۔اس سے ایک دن پہلے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر FOX ٹیلی ویژن کے بل ہیمر Bill Hemmerسے گفتگو کرتے ہوئے جناب وٹکاف بہت اعتماد سے بولے ‘مزاحمت کاروں کے ہتھیار ڈال کر غزہ خالی کردینے سے پٹی پر امن کا آغاز ہوگا’۔ جب میزبان نے پوچھا’کیامزاحمت کار یہ شرائط قبول کرلیں گے؟۔ تو موصوف بلاتوقف بولے ‘ان کے پاس متبادل کیا ہے؟ غزہ خالی کردینے کے سوا مزاحمت کاروں کے پاس اور کوئی راستہ یا چارہ نہیں’
برطرف ہونے سے پہلے خصوصی امریکی ایلچی آدم بوہلر نے اعتماد سازی کیلئے امریکی شہری ایڈن الیگزندڑ کو رہااور چار امریکیوں کی لاشوں کی حوالگی کی تجویزپیش کی تھی۔مزاحمت کاروں نے یہ درخواست قبول کرلی لیکن وزیراعظم نیتن یاہو نے اس پیشکش کو چالاکی اور نفسیاتی حربہ قرار دیکر مسترد کردیا۔ امریکی وزیرخارجہ کے خیال میں ایک امریکی قیدی اور چار لاشوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 400 فلسطیینوں کی رہائی ایک ‘احمقانہ فارمولا’ ہے۔ شائد فاضل وزیرخارجہ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ امریکی ثالثی میں وضع کئے جانیوالے معاہدے کے دوران یہ فارمولا طئے ہواتھا۔
غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ کے موقف میں ابہام و تضاد سے ایسا لگا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں اور انکے آتشیں بیانات انتہاپسندوں کو مطمئن رکھنے کی ایک کوشش ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے غزہ پر قبضے کو یقینی بناناچاہتے ہیں۔ آئرلینڈ کے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران جب وہاں موجود ایک صحافی نے وزیراعظم مارٹن سے پوچھا ‘فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے (صدر ٹرمپ) منصوبے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ تومارٹن صاحب کے کچھ کہنے سے پہلے ہی جناب ٹرمپ بولے ‘کوئی بھی کسی فلسطینی کو بے دخل نہیں کر رہا’۔ اس بات پر فلسطینیوں نے اطمینان کا اظہار کیا لیکن اس یقین دہانی کی بازگشت ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اہل غزہ کو بسانے کیلئے سوڈان ، صومالیہ اور صومالی لینڈ سے رابطوں کی خبرسامنے آگئی۔ اسکا انکشاف سب سے پہلے ٹائمز آف اسرائیل نے کیا جسکے مطابق امریکہ اور اسرائیل ان ممالک سے رابطے میں ہیں۔صومالی لینڈ کو اب تک دنیا نے آزاد ملک تسلیم نہیں کیا اور جیسے سوڈان کو دہشت گردوں کی اعانت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکالنے کے وعدے پر خرطوم کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا ویسے ہی فلسطینیوں کی میزبانی کے عوض صومالی لینڈ کو اقوام متحدہ کی رکنیت پیش کی جائیگی۔دوسرے دن عبرانی چینل 12 نے بتایاکہ 25 لاکھ اہل غزہ کو بسانے کیلئےشام سے بات چیت شروع کردی گئی ہے۔ شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے مغرب سےاچھے تعلقات کی خواہشمند ظاہر کی ہے چنانچہ چچا سام پیشکش کررہے ہیں کہ اگر دمشق اہل غزہ کو لینے پر راضی ہوجائے تو ہماری مہرومحبت کے دروازے وا ہوجائینگے۔ انکار کی صورت میی جہنم کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
اسی دوران اسرائیل میں ایک داخلی بحران پیدا ہوگیا۔ داخلی ادارہ سراغرسانی، شاباک (Shin Bet)کے سربراہ رونن بار اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ شاباک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سیاسی مفادات کیلئے غزہ امن معاہدے کی راہ میں نہ صرف روڑے اٹکارہے ہیں بلکہ حکمت عملی سے اختلاف کی بناپر نیتن یاہومجھے برطرف کرنا چاہتے ہیں۔ اس افواہ کی 16 مارچ کی شام اسوقت تصدیق ہوگئی جب وزیراعظم نے رونن بار کو برطرف کرنے کیلئے کابینہ کا اجلاس بلالیا۔ کابینہ اجلاس کا نوٹس آتے ہی اٹارنی جنرل محترمہ غالی بہراف معیارا Gali Baharav-Miara نے وزیراعظم آفس کیخلاف قطری حکام کو رشوت کھلانے کا کھاتہ کھول دیا۔جواب میں وزیراعظم کے انتہا پسند اتحادیوں کی طرف سے شاباک کے سربراہ کیساتھ اٹارنی جنرل کو بھی برطرف کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا۔اسوقت کشیدگی مزید بڑھ گئی جب حزب اختلاف نے 18مارچ کو بھرپور احتجاج کا اعلان کردیا۔ تل ابیب کے مرکزی چوک پر ہونے والے مظاہرے کی قیادت شاباک کے سابق سربراہ جورام کوہن، موساد کے سابق سربراہ تمرپاردو اور سابق پولیس کمشنر Roni Alsheich کرینگے۔ حزب اختلاف کے تمام ارکان پارلیمان کو شرکت کی ہدائت کی ہے۔
فلسطینیوں سے کشیدگی کو ہوا دیکر سیاسی دباو کا مقابلہ نیتن یاہو کی آزمائی ہوئی حکمت عملی ہے چنانچہ یہ افواہ اڑادی گئی کہ مزاحمت کار ایک بڑے حملے کی تیاری کررہے ہیں۔عسکری حلقوں کے حوالے سے چینل 12 نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج نے حالیہ دنوں میں غزہ اسرائیل سرحد پر ‘مشکوک’ سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا ہے اور ایسالگ رہا ہے کہ مزاحمت کار 7 اکتوبر 2023 کی طرح سرحدی دیہاتوں پر ایک بڑے حملے کی تیاری کررہے ہیں۔سنسنی پیدا کرنے کیلئے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر نے غزہ سرحد پر واقع تمام اسکول بند کرنے کے ساتھ ریلوں کو بھی معطل کرنے کا حکم دیدیا۔غیر جانبدار عسکری مبصرین نے اسی وقت یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ جنگی جنون پھیلاکر نیتن یاہو اور انکے انتہا پسند اتحادی غزہ پر اسرائیل کے نئے حملوں کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ کرپشن کے سنگین الزامات میں ملوث وزیراعظم کیلئے شرمندگی سے بچنے کا یہ سب سے آسان راستہ ہے۔
غزہ سے رہا ہونے والے ایک قیدی تل شوہام (Tal Shoham)کے اس انکشاف کی بھی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی کہ شدید بمباری اور ہلاکت خیز حملوں کے باوجود غزہ میں سرنگوں کا نظام نہ صرف صحیح سلامت ہے بلکہ لڑائی کے دوران بھی اسکی مرمت، تعمیر نو اور توسیع کا کام جاری رہا۔ شوہام نے Foxٹیلی ویژن کو بتایا کہ گرفتاری کے دوران اس نے سرنگوں کے توسیع کے کام میں ایک دن کا وقفہ بھی نہیں دیکھا۔اسرائیلی محکہ سراغرسانی کا خیال ہے کہ غزہ میں زیرزمین سرنگوں کی مجموعی لمبائی ساڑھے تین سو میل سے زیادہ ہے۔ سوا سال کی مسلسل بمباری کے باوجود یہ زیرزمین نظام بالکل ٹھیک ہے اور متاثر ہونے والی اکثر سرنگوں کی مرمت بھی کرلی گئی ہے۔ اس نوعیت کے خودساختہ انکشافات سے جنگی جنون و خوف کی فضا بناکر نیتن یاہو نے غزہ پر بھرپور حملہ کردیا۔
گزشتہ دس دنوں سے غزہ تاریکی میں ڈوباہوا ہے۔ امدادی سامان پر مکمل پابندی کی وجہ ساری پٹی شدید عذائی قلت کا شکار ہے۔ بمباری سے صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے جس میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور تبدیلی آئے بھی کیسے کہ دنیا کو اسکی پرواہ تک نہیں۔ خوف کا یہ عالم کہ امریکی جامعات کے شعبہ ہائے صحافت اور ابلاغ عامہ اپنے طلبہ کوفلسطین کے بارے زباں بندی کا مشورہ دے رے ہیں۔ جامعہ کولمبیا کے رئیس کلیہِ صحافت و ابلاغ عامہ جے کوب (J. Cob)اور سینئر پروفیسر ڈاکٹر اسٹیورٹ کارل (Stuart Karle)نے امریکہ میں زیرتعلیم غیر ملکی طلبہ کو نصیحت فرمائی ہے کہ ‘اگر آپ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر سرگرم ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپکے پیج پر مشرق وسطیٰ کا بہت زیادہ ذکر نہ ہو۔ یہ بڑا خطرناک وقت ہے، کوئی بھی آپ کی حفاظت نہیں کر سکتا’۔
ایسے ہی خوف کا شکار G-7کی قیادت نظر آرہی ہے۔کیینڈا کے وزرائے خارجہ اجلاس میں غرب اردن پر فوجی آپریشن اور فلسطینیوں پر قابضین کے حملوں پر تشویش کا اظہار ہوا۔ مسئلے کے پائیدار حل کیلئے دوریاستی حل تجویز کیا گیا لیکن امریکہ کے اعتراض پر مشترکہ اعلامئے میں دوریاستی فارمولاحذف کردیا گیا اور غرب اردن میں فلسطینیوں پر قابضین کے حملوں کی مذمت کے بجائے ‘تشدد پرتحفظات’ جیسا مبہم لفظ ٹانک دیا گیا۔ مہذب دنیا نے ابھی سچ بولنے کی تہذیب نہیں سیکھی۔
اسرائیل کے مذہبی عناصر ‘ٹرمپ سرکار’ کو حصولِ عظمتِ اسرائیل کی نشانی قراردے رہے ہیں۔ وزیر ماحولیات نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ‘ٹرمپ انتظامیہ، خدا نے ہماری نصرت کو بھیجی ہے اور خدا ہمیں واضح طور پر بتا رہا ہے کہ اب زمین (غزہ) کا وارث بننے کا وقت آ گیا ہے۔ حوالہ: عبرانی ریڈیو رشدِ بیت انگریزی ترجمہ روزنامہ الارض
غزہ اور غرب اردن کیساتھ اب دوسرے علاقوں کی عرب آبادیوں میں بھی عسکری آپریش کا آغاز کردیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ الخلیل الاسفل (Lower Galilee) کے شہر عرّابہ پر اسرائیلی فوج نے دھاوہ بولا جس میں تین نوجوان جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ گھر گھر چھاپوں میں 100 سے زیادہ افراد گرفتار کرلئے گئے۔غرب اردن میں فلسطینیوں کے خلاف قابضین کے خلاف حملوں میں شدت آگئی ہے۔ نابلوس کے قریب دوما میں فلسطینیوں کے گھروں کو آگ لگادی گئی۔ رات کو کی جانیوالی اس وحشیانہ کاروائی میں دیاسلائی دکھانے سے پہلے گھروں کو باہر سے مقفل کردیا گیاتھا۔ شاید یہ ٹرمپ صاحب کی دھمکی ‘جہنم کے دروازے کھولدینے’ کا عملی مظاہرہ تھا۔ بھرپور جنگ سے چار دن پہلے، نمازِ جمعہ کے دوران شمالی غزہ میں بیت لاہیہ پر بمباری کی گئی جس میں ترک خبر رساں ایجنسی Anadoluکے صحافی محمد اسلام سمیت 9 افراد جاں بحق ہوگئے۔
امریکہ میں غزہ نسل کشی کے خلاف آوازاٹھانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ انصاف کے اس الزام کے بعد کہ جامعہ کولمبیا کی انتظامیہ نے مطلوب افراد کو پناہ دے رکھی ہے، طلبہ کے ہاسٹل اور تدریسی عملے کی رہائش گاہیں کھنگالی گئیں۔ چھاپے کے دوران کوئی گرفتارعمل میں نہیں آئی لیکن دوسرے دن گھر سے فلسطینی طالبہ لقیٰ قرضیہ کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ پی ایچ ڈی کی ایک تامل (ہندوستانی) طالبہ رنجھن سرینیواسن، تعلیم ادھوری چھوڑکر خود ہی کینیڈا چلی گئی۔اسکے سوشل میڈیا اکاونٹ پر غزہ کے حق میں مواد دیکھ کر جامعہ نے اسکا ویزا منسوخ کرادیا تھا۔ملزمان کو پناہ دینے کے الزامات اور وفاقی گرانٹ میں کٹوٹی سے گھبرا کرجامعہ نے گزشتہ سال مظاہرے کرنے والے کئی طلبہ کو جامعہ سے خارج کرنے کے علاوہ بہت سے فارغ التحصیل طلبہ کی اسناد معطل کردیں۔ان اقدامات کے خلاف یہودی صدائے امن (Jewish Voice for Peace)کے زیراہتمام نیویارک کے ٹرمپ ٹاور پر 14 مارچ کو طلبہ نے دھرنا دیا۔مظاہرین نے سرخ رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس پر لکھا تھا Not in Our Nameیعنی ہم یہودیوں کے نام پر ظلم نہ کرو۔گروپ کی قائد سونیا نوکس نے تقریر کرتے ہوئے امریکی یہودیوں سے کہا کہ آج فلسطینیوں کے حقوق کی پامال برداشت کرلی گئی تو کل کوئی اور اقلیت نشانہ بنے گی۔اگر آج آواز نہ اٹھائی تو کل آواز اٹھ ہی نہ سکے گی۔ پولیس نے پرتشدد کاروائی کرکے دھرنا دینے والوں کومنتشر کردیا اور 100 افراد گرفتا کرئے گئے جن پر نجی عمارت میں بلااجازت داخل ہونے اور کاروبار میں خلل ڈالنے کے پرچے کاٹے گئے ہیں۔
بڑی طاقتوں کی بے ضمیری اور مہذب دنیا کے دوغلے کردار کا ماتم اپنی جگہ لیکن ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر افراد کی بھی دنیا میں کمی نہیں۔معروف پاکستانی آرکیٹیکٹ یاسمین لاری کو اسرائیلی ادارے وولف فاونڈیشن نے ایوارڈ اور ایک لاکھ ڈالر انعام سے نوازا۔ ایوارڈ کیلئے لاری صاحبہ نے کسی مقابلے میں شرکت نہیں کی تھی بلکہ ادارے نے دنیا بھر کے آرکیٹیکٹ کے ڈیزائن کا جائزہ لینے کے بعد چند ماہرین کو انعام دینے کا فیصلہ کیا۔ جب یاسمین لاری کو اطلاع ملی تو انھوں نے انعام لینے سے انکار کردیا۔ اپنے مختصر پیغام میں انھوں نے کہا ‘افسوس کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کیلئے کچھ نہیں کرسکے لیکن اسرائیلی مظالم کے خلاف میں اتنا ضرور کرونگی جتنی مجھ میں سکت ہے۔اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کرکے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی۔