“مائینس عمران گیم” کی ناکام کوشش…نصرت جاوید

حکمران جماعت ہی نہیں اس کے اتحادیوں کے کئی رہ نمابھی مصر رہتے ہیں کہ پیکا نامی قانون کی حمایت میں ووٹ ڈال کر انہوں نے درحقیقت صحافت کو توانا تر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسے سوشل میڈیا پر چھائی یاوہ گوئی سے بچ کر اپنے اصل کام یعنی ’’خبر‘‘ کی تلاش کی راہ پر ڈٹے رہنے میں کمک فراہم کی ہے۔ ’’کھرے صحافیوں‘‘ کو اس قانون سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
گھبراہٹ مگر ہم صحافیوں کی گھٹی میں موجود ہے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے حکمران بند کمروں میں کئے فیصلوں کو اپنے انداز میں لوگوں کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ وہ صحافیوں کو یہ حق فراہم کرنے کو آمادہ نہیں کہ اس امر کا سراغ لگایا جائے کہ فلاں فیصلہ ریاست وحکومت کے کونسے فرد یا ادارے کی ترجیح تھی۔ اس فیصلے کے حقیقی اہداف کیا ہیں اور حکمران اشرافیہ میں سے کونسے افراد یا ادارے اسے رکوانے میں متحرک رہے۔
منگل کے دن مثال کے طورپر موجودہ حکومتی بندوبست نے ملک میں دہشت گردی کی تازہ ترین لہر کے بارے میں عوامی نمائندوں کو بریف کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ خوش آئند تھا مگر اس پر عملدرآمد کی طرف بڑھتے ہوئے حکمران جماعت ہی نہیں بلکہ پارلیمان میں موجود واحد اکثریتی جماعت یعنی تحریک انصاف نے بھی اپنی ’’ترجیحات‘‘ عیاں کردی ہیں۔
موجودہ حکومتی بندوبست اگر واقعتا ’’عوامی نمائندوں‘‘ کو دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بارے میں قومی سلامتی اداروں کے پاس موجود ڈیٹا اور انٹیلی جنس پر مبنی اطلاعات سے آگاہ کرنا چاہتا تھا تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلوایا جاسکتا تھا۔ اس اجلاس کو ’’اِن کیمرہ‘‘ رکھتے ہوئے عسکری اداروں سے بریفنگ کا اہتمام ہوجاتا۔ قومی سلامتی کے امور پر بلائے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے تحریک انصاف دور رہنے سے گریز کرتی۔ ناک کو سیدھے ہاتھوں پکڑنے کے بجائے مگر یہ فیصلہ ہوا کہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے چند اراکین کی فہرست تیار کریں۔ جو لوگ نامزد ہوں گے وہ پارلیمان کی قومی سلامتی کے بارے میں ’’خصوصی کمیٹی‘‘ کے رکن بن جائیں گے۔ انہیں عسکری حکام سے بریفنگ دلوائی جائے گی۔ ناک کو گردن کے پیچھے ہاتھ گھماکر پکڑنے سے نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ سیاسی جماعتوں سے نامزدگی کے سبب ’’خصوصی کمیٹی‘‘ کی تعداد 117اراکین کی حد تک پہنچ گئی۔ سب سے زیادہ افراد تحریک انصاف کی جانب سے نامزد ہوئے۔
تحریک انصاف کی پارلیمانی قیادت نے باقاعدہ چٹھی کے ذریعے قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ کے لئے اپنے اراکین کے نام سپیکر کو بھجوا دئیے تو سوشل میڈیا پر اسی جماعت کے بیانیے کے محافظ وامین بنے ہجوم نے دہائی مچانا شروع کردی۔ انہیں گماں تھا کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر سے نبردآزما ہونے کے لئے حکومت بالآخر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کو مجبور ہوجائے گی۔ اے پی سی بلانے کی کوشش ہوئی تو حکمرانوں پر دبائو ڈالا جائے گا کہ وہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے کوئی متفقہ حکمت عملی تیار کرنے میں سنجیدہ ہے تو مذکورہ کانفرنس میں شرکت کے لئے ملک کے ’’مقبول ترین رہ نما‘‘-عمران خان- کو بھی مدعو کیا جائے۔ یہ درست کہ وہ ان دنوں جیل میں ہیں۔ قیدی کو مگر ’’پیرول‘‘ پر رہا بھی تو کیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف کے بیانیے کو فروغ دینے والوں نے یہ دہائی بھی مچائی کہ قومی سلامتی کے امور پر ’’پارلیمانی کمیٹی‘‘ کو بریفنگ کا اصل مقصد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کو غیر ضروری بنانا ہے جس میں عمران خان کی شرکت ٹالنا ناممکن ہوجاتا۔ اس دلیل کی بنیاد پر کہانی یہ چلائی گئی کہ قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی بنانے کا اصل مقصد عوامی نمائندوں کی بریفنگ نہیں بلکہ تحریک انصاف کو ’’مائنس عمران‘‘ کے عمل سے گزارنا ہے۔ تحریک انصاف کی پارلیمانی قیادت شعوری یا لاشعوری طورپر ’’مائنس عمران‘‘ والے حربے کو سمجھ نہیں پارہی۔ ’’مائنس عمران‘‘ کی مبینہ سازش کی سوشل میڈیا پر مچائی دہائی کی حدت وشدت کو سمجھتے ہوئے محمود خان اچکزئی متحرک ہوئے۔ وہ تحریک تحفظ آئین نامی اتحاد کے سربراہ ہیں۔ تحریک انصاف مذکورہ اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ روایتی اور پارلیمانی سیاست کے جغادری کھلاڑی ہوتے ہوئے اچکزئی صاحب نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے ایک روز قبل ہوئی افطار پارٹی میں ایک دھواں دھار تقریر فرمائی۔ تحریک انصاف کی قیادت کو یاد دلایا کہ ان کا ’’مینڈیٹ چوری ہوچکا ہے‘‘۔ وہ اس کی بازیابی پر توجہ کیوں نہیں دے رہے۔ محمود خان اچکزئی کی اس تقریر کے بعد تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی حواس باختہ ہوگئی۔ رات گئے ایک پیغام کے ذریعے حکومت اور ہمیں آگاہ کیا کہ تحریک انصاف کے نمائندے اپنے رہ نما سے جیل میں ملاقات کئے بغیر قومی سلامتی پر ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ ’’مائنس عمران گیم‘‘ یوں ناکام بنادی گئی۔
حکومت نے تحریک انصاف کے بغیر ہی پروگرام کے مطابق ’’پارلیمانی کمیٹی‘‘ کا اجلاس بلوالیا۔ اس کے اندر کیا ہوا؟ اس حوالے سے مجھے عرصہ ہوا رپورٹنگ سے ریٹائر ہونے کے باوجود کافی علم ہے۔ اپنے پاس آئی معلومات کو اگر میں اس کالم میں لکھوں تو وہ سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ ہوں گی۔ وہ پوسٹ ہوئیں تو پیکا ایکٹ کے تحت میں پارلیمانی کمیٹی کے ’’اِن کیمرہ‘‘ ہوئے اجلاس کے قومی سلامتی کے حوالے سے بتائے ’’راز‘‘ افشاں کرنے کا مرتکب قرار دیا جائوں گا۔ مذکورہ امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے منگل کی شام سے اپنے طورپر یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ قومی سلامتی کے امور پربلائی کانفرنس میں کس نے کیا کہا۔ جوبھی اطلاعات ملیں وہ ایسے دوستوں کے توسط سے ملیں جو صحافیانہ تجسس کے ساتھ ’’اندر کی خبر‘‘ ڈھونڈ رہے تھے۔ بدھ کی صبح اٹھ کر گھر میں آئے اخبارات کے پلندے پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے مگر قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ کی خاطر بلائی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے کوئی ’’چوندی چوندی‘‘ خبر نظر نہیں آئی۔ مذکورہ کمیٹی سے وزیر اعظم اور آرمی چیف نے جو گفتگو کی اس کے مختصر اور احتیاط سے منتخب کئے کلمات منگل کی شام ہی سرکاری ذرائع نے عوام کے روبرو رکھ دئیے تھے۔
تحریک انصاف کی عدم شرکت کے باوجود مذکورہ اجلاس میں خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ شریک ہوئے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے جوابی بیان آیا۔ علی امین گنڈاپور کی تقریر میری اطلاع کے مطابق کافی ’’سخت‘‘ تھی۔ پیکا کے خوف سے مگر میں اس کی تفصیلات بھی بیان نہیں کرسکتا۔ صحافی کا فریضہ اب فقط وہ چھاپنا یا نشر کرنا رہ گیا ہے جو سرکاری طورپر بیان ہو۔ اپنے تئیں خبر کا کھوج لگانے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ایک سوال اس کے باوجود اٹھانے سے باز نہیں رہ سکتا اور وہ یہ کہ اگر منگل کے روز ہوئی کانفرنس واقعی بہت اہم تھی تو اس میں پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کیوں شریک نہیں ہوئے؟ اس کے علاوہ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے ووٹوں سے سینٹ کا رکن بننے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ ہوئے محسن نقوی بھی اس کانفرنس سے دور کیوں رہے؟

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت