طلبہ یونین بحالی تحریک ۔۔۔تحریر امیر العظیم


جناب مظہر عباس نے طلبہ سیاست کو موضوع بناتے ہوئے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ یونین سازی پر پابندی لگی تو دائیں اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے مشترکہ ایکشن کمیٹی بناکر بھرپور تحریک چلائی مگر جب تحریک کامیابی کے قریب تھی تو اچانک ایک دن جماعتِ اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد مرحوم کا بیان آیا کہ طلبہ احتجاج ختم کردیں اور اسلامی جمعیت طلبہ جو میاں صاحب کے فیصلے سے خوش نہیں تھی تحریک سے نکل گئی۔ کچھ عرصہ قبل برادر عزیز مظہر برلاس نے اپنے سلسلہ وار کالم ”سندھ کا مقدمہ“میں لکھا کہ ضیاءالحق کایہ خیال تھا کہ اگر طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا دی جائے تو ایم آر ڈی کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ سندھ کے بڑے شہرکراچی یونیورسٹی میں جمعیت کی یونین تھی باقی جگہوں پر این ایس ایف اور ڈی ایس ایف کا زور تھا۔ پابندی کے خلاف طلبہ نے پورے سو دن ہڑتال کی۔اس اسٹرائیک میں این ایس ایف کے طلبہ نے پرجوش انداز میں شرکت کی۔ ان کے کئی لیڈر گرفتار ہوئے۔ میرے ان دونوں دوستوں نے اس معاملہ میں تاریخ سے آنکھیں چرائی ہیں۔ میں اِس مضمون میں روزنامہ جنگ لاہور کی فائلوں کی مدد سے تاریخ وار حقیقت پیش کررہاہوں۔ اپریل1983میں خیبر میڈیکل کالج میں طلبہ تصادم میں ایک طالب علم قتل ہوا۔اس کی آڑ میں پورے صوبے میں پابندی لگا دی گئی۔ دسمبر1983میں پنجاب بھر میں الیکشن ہوئے۔ انتخابات بہت پرامن ہوئے، روزنامہ جنگ کے مطابق 80 فیصد کالجز میں جمعیت جیتی۔ جنوری 1984میں کراچی یونیورسٹی میں الیکشن ہوئے۔ جمعیت کا پورا پینل کامیاب ہوا۔ 22 جنوری کو وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر افضل نے بیان دیا کہ یونین پر پابندی کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن 31جنوری کو اسلام آبادکے وفاقی تعلیمی اداروں میں پابندی لگادی گئی۔ 9 فروری کو پنجاب بھر میں اور 11فروری کو سندھ میں پابندی لگا دی گئی۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے 11فروری کو احتجاجی تحریک کا آغازکردیا اسی روز سے اندھا دھند گرفتاریاں شروع ہوئیں۔پانچ دن بعد لاہور کی ملٹری کورٹ سے جمعیت کے دو طلبہ کو چھ ماہ کی قید کی سزائیں سنادی گئیں۔ راقم الحروف پنجاب یونیورسٹی یونین کا صدر تھا۔ مجھ سمیت پوری یونین اور جمعیت کے عہدے داران کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ دوسری طرف حکومتی دباؤپر کے پی اور پنجاب کے تعلیمی اداروں سے طلبہ کا اخراج، گرفتاریاں اور فوجی عدالتوں میں مقدمات شروع ہو گئے۔ پنجاب اور کے پی کے برعکس کراچی میں این ایس ایف اور پی ایس ایف بھی اس تحریک کا ساتھ دے رہی تھی اگرچہ سندھ انتظامیہ نے کراچی کے طلبہ پرتشدد کے وہ حربے استعمال نہیں کیے جو پنجاب اورکے پی میں ہورہے تھے۔ مارچ کے آغاز میں چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل ضیاءالحق نے ملک گیر عوامی رابطے کے ایک پروگرام کا اعلان کیا۔ اس پروگرام کا پہلا جلسہ پشاور میں رکھا گیا۔ 12مارچ کو ہونے والے اس جلسہ عام میں جمعیت نے یونینز کی بحالی کے لیے ایسا احتجاج کیا کہ صدر ضیاءالحق تقریر نہ کرسکے۔ مارچ کے آخر تک ملک بھر سےجمعیت کے 1588کارکنان گرفتا ر کیے جاچکے تھے لیکن تحریک کا زور ختم نہیں ہوا۔ حکومت نے طلبہ کونسلوں کے انتخابات کا اعلان کردیا۔ ابتدا کراچی سے کی گئی۔ ایک کالج کے علاوہ کسی بھی ادارے میں طلبہ نے کاغذات نامزدگی داخل نہ کروائے۔ اگلے روز اس اکلوتے کالج سے بھی کاغذات واپس لے لئے گئے۔طلبہ تحریک میں صرف کراچی کی حد تک دوسری تنظیموں کا تعاون بھرپور تھا جبکہ پورے ملک میں تنہا جمعیت ہی اس تحریک کو جاری رکھے ہوئے تھی۔ قومی قیادت ایم آرڈی اور جماعت اسلامی بھی بیانات کی حد تک ساتھ تھی لیکن جو پشت پناہی ہونا چاہیے تھی وہ کسی بھی طرف سے نہیں تھی۔ جمعیت نے کوشش کی کہ ایم آرڈی کی قیادت سے رابطے کرکے انہیں آمادہ کیاجائے کہ طلبہ تحریک کو قومی تحریک بنایا جائے۔ رابطوں میں طے پایا کہ ایم آر ڈی کے سیکریٹری جنرل ملک قاسم کے گھر طلبہ تنظیموں کا اہم اجلاس کیاجائے گا۔ اس میٹنگ کی بھنک حکومت کو پڑ گئی۔ اس میٹنگ کے بعد رات کے ایک بجے ملک قاسم مرحوم کے گھر سے باہر نکلا تو سفید کپڑوں میں پولیس کی بھاری نفری نے مجھے دبوچ لیا۔ میرے ساتھ جمعیت کے سیکرٹری جنرل زاہد باجوہ بھی تھے۔اگلے روز صدر ضیاءالحق لاہور ائیرپورٹ پر پریس کانفرنس کررہے تھے کہ جنگ کے انجم رشید نے سوال کرڈالاکہ پولیس اب شادیوں سے بھی سیاسی کارکنان کو اغواکرتی ہے؟ 9فروری سے شروع ہونے والی تحریک 22مئی تک جاری رہی۔ اس پوری تحریک میں جمعیت کے علاوہ کسی اور طلبہ تنظیم کے کسی عہدے دار کو نہ تعلیمی اداروں سے نکالا گیا، نہ گرفتاریاں ہوئیں اور نہ ہی سز اہوئی۔ جو کچھ ہوا اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ہوا۔یہ ایک تاریخی ریکارڈہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے پیش نظر 22 مئی کو اسلامی جمعیت طلبہ نے باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے طلبہ تحریک کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ حکومت نے اسے غنیمت جانتے ہوئے رمضان کے پہلے عشرے میں طلباءکو رہا کرنا شروع کردیا۔ طلبہ یونین کے نمائندوں نے اپنے اپنے کالجوں میں غیر رسمی انداز میں اپنا کام شروع کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یونینز کی بندش کے باعث سیاسی کارکنان کی نرسری ختم ہوگئی لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تعلیم مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جارہی ہے۔ ایم بی بی ایس 80لاکھ اور ایم اے /ایم ایس سی درجہ کی ڈگری بیس بیس لاکھ میں ہو رہی ہے۔ اگر اس کانوٹس نہ لیا گیا تو کسی روز ”طلبہ بم “ کی صورت میں پھٹ پڑیں گے۔

(صاحبِ تحریرسیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان ہیں)

بشکریہ روزنامہ جنگ