یورپی یونین کو ناقص چاول برآمد ہونے میں عملہ ملوث ہے ،،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی میں انکشاف

اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی میں انکشاف ہواہے کہ یورپی یونین کو ناقص چاول برآمد ہونے میں عملہ ہی ملوث ہے ،معاملہ انتہائی سنگین ہے،ذمہ داران کو گرفتار  اور ڈی جی کو ہٹادیا گیا ہے،کمیٹی نے زرعی ریسرچ کے لیے انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کی سفارش کردی،کمیٹی نے کاٹن سیس کی ریکوری کے لیے اپٹما کو آئندہ اجلاس میں بلانے کا فیصلہ کرلیا۔کمیٹی نے ملک میں فوڈ سیفٹی پالیسی کے حوالے سے ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا،سینیٹر ایمل ولی خان نے کہاکہ پاکستان میں 76 فیصد دودھ کیمیکل ہے،یہاں مینڈک کے پکوڑے اور کتے کا گوشت مل رہا ہے۔

چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام محمد علی نے بتایاکہ ہم خطے میں سب سے کم ریسرچ پر خرچ کر رہے ہیں،پی اے آر سی نے دس سالوں میں 3.44 ٹریلین کا قومی معشیت کو فائدہ ہوا، مستقل ریسرچ فنڈ مختص کرنے کی ضرورت ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر سید مسرور احسن کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔ کمیٹی میں کاٹن سیس کی ریکوری کیلئے وزارت غذائی تحفظ کے اقدامات پر بحث کی گئی۔کمیٹی کووزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی رانا تنویر حسین  نے کاٹن سیس کی ریکوری کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ کاٹن سیس کا مسئلہ بنا ہوا ہے، اپٹما والے کاٹن سیس نہیں دے رہے،کاٹن پر پاس ریسرچ کے پیسے ہی نییں ہیں، اپٹما والے کہتے ہیں کہ کاٹن سیس کیلئے ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں، اپٹما والوں کا کہنا ہے کاٹن کی کم پیداوار پر فنڈز مینج نہیں ہو رہے، اپٹما والے کاٹن سیس پر مختلف حیلے بہانوں سے کام چلا رہے ہیں،ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ساتھ دو تین میٹنگز ہو چکی ہیں ،

امپورٹ پر بھی سیس دینا پڑتا ہے ،امپورٹ کی تفصیلات  ایف بی آر کے پاس موجود ہیں، فی بیل 50 روپے کاٹن سیس فکس ہے جو 2016 سے نہیں دیا جا رہا، کاٹن سیس ایکٹ کو مظبوط نہ کیا گیا تو کاٹن پیداوار مزید متاثر ہوگی۔حکام وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی نے بتایاکہ دسمبر میں پانچ میٹنگز اپٹما سے ہو چکی ہیں۔ سیس کے983 ملین روپے بنتے ہیں اپٹما والے 660 ملین روپے بنا رہے ییںتفریبا 300 ملین روپے کا فرق ہے،31 ملین ماہانہ سیس ملا ہے ، سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ دے دیا ہے،اڑھائی ارب روپے کی ریکوری ہے، 80 ہزار کی گانٹھ پر 50 روپے دینے کو تیار نہیں ہیں، کاٹن ترمیمی بل لائیں گے تاکہ کاٹن سیس نہ دینے کو جرم قرار دیا جائے۔ حکام  نے تجویز دی کہ کاٹن سیس ادا نہ کرنے کو جرم قرار دیا جانا چاہئیے،  کاٹن سیس ادا نہ کرنا نا قابل ضمانت جرم قرار دیا جانا چاہئیے،کاٹن سیس کی عدم ادائیگی کے خلاف ٹیکسٹائل ملز کے خلاف 66 کیسز کیے، 66 میں سے 63 کیسز کے فیصلے پاکستان کاٹن سیس کمیٹی کے حق میں آئے، کاٹن سیس ایکٹ 1923 میں انگریزوں نے متعارف کرایا تھا،  قائد اعظم کی موجودگی میں 1947 میں کاٹن سیس ایکٹ منظور کیا گیا تھا، کاٹن سیس ایکٹ میں ہم ترمیم تجویز کرنا چاہتے ہیں۔

رانا تنویر حسین نے کہاکہ اپٹما کے عہدیداران کو کمیٹی میں بلائیں، کپاس ڈیڑھ کروڑ گانٹھ کی پیداوار سے 50 لاکھ پر آگئی ہے،کمیٹی کا کاٹن سیس کی ریکوری کے لیے اپٹما کو آئندہ اجلاس میں بلانے کا فیصلہ کرلیا۔کمیٹی میں یورپی یونین کو ناقص چاول کی ایکسپورٹ کا معاملہ زیر بحث آیا۔ڈی جی پلانٹ پروٹیکشن نے کمیٹی کو یورپی یونین میں چاولوں کی برآمد میں بد انتظامی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ 2024 میں 10300 چاولوں کے کنٹینرز برآمد ہوئے،اٹلی کو برآمد کیے گئے چاولوں بارے شکایت آئیں، کل 107 شکایات آئیں، اس معاملے پر صوبائی حکومتوں سے رابطے میں ہیں،گزشتہ سال یوپی یونین کی 61 شکایات آئیں۔سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی نے  کہاکہ  عملے کی ملی بھگت کی وجہ سے معاملہ ہوا، معاملہ انتہائی سنگین ہے،ذمہ داران کو گرفتار کیا گیا ہے اور ڈی جی کو ہٹایا گیا،نیا قانون بنانے جا رہے ہیں،نیشنل اینمل اینڈ پلانٹ پروٹیکشن کا ادارہ بنانے جا رہے ہیں،ملک کے اندر کھایا جا نے والے چاول کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا،قومی سطح پر کوئی فوڈ سیفٹی اتھارٹی ہی نہیں ہے۔سینیٹر ایمل ولی خان نے کہاکہ پاکستان میں 76 فیصد دودھ کیمیکل ہے، ملک میں کھائی جانے والی خوراک زہریلی ہے،

یہاں مینڈک کے پکوڑے اور کتے کا گوشت مل رہا ہے۔سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ ملک میں کھائے جانے والے چاولوں میں آرسینک پایا جا تا ہے کمیٹی نے ملک میں فوڈ سیفٹی پالیسی کے حوالے سے تین رکنی ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا،کمیٹی نیشنل فوڈ سیفٹی پالیسی کا ڈرافٹ بنائے گی کمیٹی کی سربراہی سینیٹر شاہزیب خانزادہ کریں گے کمیٹی ارکان میں سینیٹر ایمل ولی خان اور سینیٹر پونجو بھیل شامل ہوں گے۔چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام محمد علی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ اگر مسلسل ریسرچ نہیں کریں گے توفوڈ سیکورٹی کا مسئلہ ہو گا،ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہم خطے میں سب سے کم ریسرچ پر خرچ کر رہے ہیں،پی اے آر سی نے دس سالوں میں 3.44 ٹریلین کا قومی معشیت کو فائدہ ہوا، مستقل ریسرچ فنڈ مختص کرنے کی ضرورت ہے، گندم کا ایک بھی بیج امپورٹ نہیں ہوا،کمیٹی نے زرعی ریسرچ کے لیے انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کی سفارش کردی۔