لاہور(صباح نیوز ) ماحولیاتی ماہرین نے یہاں منعقدہ ایک پالیسی مکالمے میں پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے ساتھ آب و ہوا کے لچکدار پانی، صفائی اور حفظان صحت (WASH) نظام کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ پاکستان 2030 تک اپر مڈل انکم ممالک کی صف میں شامل ہو سکے۔واٹر ایڈ اور پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (SDPI) کے اشتراک سے منعقدہ اس مکالمے میں پالیسی ماہرین نے پائیدار ترقی کے اہداف کی تکمیل کا راستہ کے عنوان سے پالیسی رپورٹ کے اجراء کا بھی اعلان کیا۔ مکالمے میں ماہرین، پالیسی سازوں، اور واش شعبے کے پیشہ ور افراد نے شرکت کی تاکہ واش نظام میں ماحولیاتی لچک کو بہتر بنانے اور پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے حکمت عملی وضع کی جا سکے۔
واٹر ایڈ کے سینئر مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر شکیل حیات نے موسمیاتی خطرات، وبائی امراض، اور تنازعات کے شکار علاقوں میں واش خدمات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لاکھوں افراد کو صاف پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کی سہولیات دستیاب نہیں جس کے نتیجے میں صحت اور معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے قرار دیا کہ پاکستان کے لئے ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت کے پیش نظر انسانی ہمدردی کے شعبے میں واش کو اولین ترجیح دینا ضروری ہے۔ رپورٹ کے مرکزی مصنف محمد اویس عمر نے پاکستان میں آب و ہوا کے لچکدار واش نظام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نظام نہ صرف صحت، تعلیم، اور صنفی مساوات کے اہداف کی تکمیل میں مددگار ہے بلکہ معاشی ترقی کو بھی فروغ دیتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے واش نظام میں سرمایہ کاری، سرکاری و نجی شراکت داری، اور صنفی حساس خدمات کو فروغ دینا ہوگا۔واٹر ایڈ کے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبائی منیجر محمد سفیان نے کہا کہ پائیدار ترقی واش نظام میں ماحولیاتی لچک کو شامل کئے بغیر ممکن نہیں۔انہوں نے زور دیا کہ مسائل کے حل کے لئے شراکت داری، جدت، اور سرمایہ کاری ناگزیر ہیں تاکہ واش نظام کو مضبوط، جامع اور مستقبل کی ضروریات کے مطابق بنایا جا سکے۔ویمن ان سٹرگل فار امپاورمنٹ کی بشریٰ خالد نے کہا کہ صاف پانی تک رسائی ایک طبقاتی مسئلہ بن چکا ہے اور خواتین کو دور دراز علاقوں سے پانی لانے کی دشواریوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی پانی کے مسائل اور صفائی کے نظام کی خرابی کا باعث بن رہی ہے جس سے خاص طور پر خواتین کی نقل و حرکت متاثر ہو رہی ہے۔
سٹرینتھننگ پارٹیسپیٹری آرگنائزیشن کے نمائندے شاہنواز خان نے کہا کہ پنجاب میں طویل عرصے سے مقامی حکومت کا نظام فعال نہ ہونے کی وجہ سے واش سہولیات کا فقدان ہے۔ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی جینڈر اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی سربراہ ڈاکٹر عظمیٰ عاشق نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی کے طلبہ نے واٹر ایڈ کے ساتھ کئی منصوبوں میں شمولیت اختیار کی ہے اور ایک طالب علم نے پانی کی بچت کے حوالے سے یونیسکو ایوارڈ بھی جیتا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی طلبہ کو واش کے سفیر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔پنجاب آبِ پاک اتھارٹی کے حکام نے بتایا کہ کاربن کریڈٹ گائیڈ لائنز اور گرین کریڈٹ متعارف کروائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واش اہداف کے حصول کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا سٹیک ہولڈرز کے پاس ایک نادر موقع ہے ۔ماہرین نے زور دیا کہ ماحولیاتی لچکدار واش نہ صرف ماحولیاتی اثرات کے خلاف ایک مضبوط دفاع ہے بلکہ یہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کا بھی اہم ذریعہ ہے چنانچہ اس کے لئے قومی و مقامی سطح پر شراکت داری، مضبوط پالیسی سازی، اور سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے۔