حافظ نعیم کا اسٹیبلشمنٹ سے گلہ۔۔۔ تحریر: مجاہد چنا

امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم حافظ نعیم الرحمٰن نے گزشتہ روز لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے تحت منعقدہ حقوق طلبہ کنونشن سے خطاب کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کیا کہ “یہ پاکستان کو مسجد سمجھ کراس کی حفاظت کرنے والوں کا راستہ روکتی اور لٹیروں کو قوم کے سروں پر سوار کرتی ہے” (بحوالہ روزنامہ جسارت 19دسمبر2024)حافظ صاحب کا یہ گلہ درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ جماعت اسلامی اور ان کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لازوال قربانیاں دیں ہیں۔

پاکستان کی محبت میں اور ملک کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے الشمس و البدر نے پاک فوج کے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دشمن کی مکتی باہنی کا مقابلہ کیا۔اس کی پاداش میں یعنی پاکستان سے محبت اوروفاداری کے جرم میں شیخ حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور چھاترو شبر پر پابندیوں سمیت ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے سینکڑوں کارکنوں کو پابند سلاسل اور کئی رہنماوں جس میں سابق ارکان پارلیمنٹ ،کاروباری شخصیات مطیع الرحمان نظامی،پروفیسر غلام اعظم ، ملاعبداالقادر ، میر قاسم علی،علی احسان محمد مجاہد،محمدقمرزمان سمیت کئی دیگر معروف رہنماو ¿ں کو پھانسی پر لٹکا دیا اس طرح وطن کی مٹی کی خاطر گمنام شہداءکی بھی بڑی تعداد ہے۔

یاد رہے کہ پھانسی چڑھنے والوں نے معافی اورنہ ہی کوئی رحم کی اپیل کی۔ اس کے بدلے میں ہر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کا راستہ روکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔دور نہیں جائیں حالیہ عام انتخابات میں کراچی سمیت ملک بھر میں جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی سیٹیں شکست خوردہ جماعتوں کے نمائندوں کو دے دی گئیں۔ کراچی کے میئر کے انتخاب کی ہی مثال لے لیں۔ حلقہ بندیوں کی بندر بانٹ، بدترین دھاندلی اور حکومتی دھونس و غنڈاگردی کے باجود بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ ووٹ لیکر نمبر ون جماعت کا اعزاز حاصل کیا۔ جیتی ہوئی نشستوں کے دوبارہ تھیلے کھول کر ووٹ کم کئے۔

اس کے باوجود پی ٹی آئی کی حمایت سے حافظ نعیم الرحمٰن میئر کراچی کے مضبوط امیدوار تھے مگر اسٹیبلشمنٹ کی جوڑتوڑ سے تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کا میئر منتخب کرایا گیا۔ اس کی حالت یہ ہے کہ شہرکے ترقیاتی کام تو اپنی جگہ مگر قبضہ میئر ایوان یعنی سٹی کونسل میں بھی نمائندوں کا سامنا نہیں کرپارہا ہے۔عملی طور کراچی کچرا کنڈی، جرائم کی آماجگاہ قبضہ مافیا اور بدترین ٹریفک جام سمیت بے شمار مسائل کا شکار ہے۔خود حکومتی اعدادوشمار کے مطابق رواں سال ٹریفک حادثات میں 450 افراد جبکہ دوران ڈکیتی مزاحمت پر 110افراد اپنی جان گنوا بیٹھے۔

یہ حادثات و واقعات کی وہ فگر ہے جو حکومت کے پاس رپورٹ شدہ ہے بغیر رپورٹ ملادیں تو تعداد اور بھی بڑہ جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ شاید اس لیے بھی قابل دیانتدار اور فرض شناس افراد کی بجائے نااہل کرپٹ افراد کو پسند کرتی ہے کہ ان کی دکانداری بھی چلتی رہے اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بھی خوش رہے۔ ملکی سلامتی کے لے اپنی جانیں قربان کرنے کے علاوہ ڈیڈھ سو سے زائد جماعت اسلامی کے ارکان پارلیمنٹ رہے جن کی کارکردگی بھی نمایاں اور ان پر کسی قسم کی کوئی کرپشن کا الزام بھی نہیں ہے یہاں تک کہ کئی سال تک سینیٹرز رہنے والے سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد اور مایہ ناز ماہر معیشت پروفیسر خورشید احمد نے تو جائز تنخواہ، پلاٹ اور کسی قسم کی مراعات لینے سے بھی انکار کردیا۔

سابق میئر کراچی عبد الستار افغانی اور سابق ناظم سٹی نعمت اللہ خان، خیبرپختونخوا کے سابق وزیرخزانہ و سینئر وزیر سراج الحق کا کردار و کام دیانت و امانت پوری قوم کے سامنے ہے جماعت اسلامی نے ملک و قوم کو ایسے ایسے انمول ہیرے دیئے ہیں پھر بھی ایسی جماعت کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کا راستہ روک کر کرپٹ و لٹیروں کو مسلط کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر افسوس ہوتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے لیے نہیں کسی بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں؟۔امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ سے بھیک نہیں مانگتے کہ ہمیں مصنوعی طریقے سے جتوائیں مگر جب عوام اپنی مرضی اور ملک و قوم کی بھتری کے لیے دیانتدار و قابل قیادت کو منتخب کرتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ ہمارا راستہ نہ روکے یہ ملک و قوم کے ساتھ دشمنی ہے۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔۔۔۔