منڈی بہاؤ الدین، پسرور، پھالیہ، گجرات، جلالپور جٹاں کی مائیں بچے اسلئے نہیں جنتیں۔ اسلئے نہیں پالتیں کہ بحیرہ روم کی سفاک موجوں کا لقمہ بن جائیں۔
مائیں، بہنیں، باپ، بھائی سب سوگوار ہیں۔ گھر گھر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ برسوں سے یہ المیے برپا ہو رہے ہیں۔ ہم تین چار دن واویلا کرتے ہیں پھر ان انسان دشمن اسمگلروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہوتے ہیں۔ انسانوں کو سمندر کی نذر کرنے والے بھی ہم علاقے کے چوہدریوں، جاٹوں، آرائیوں میں سے ہی ہیں۔ یہاں کے ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹرز، وزرا سب ان کو جانتے ہیں۔ ایس ایس پی، ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او سب ان کو پہچانتے ہیں۔ مسجدوں کے خطیب اور اماموں سے بھی یہ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ قاتل ہیں، آدم خور ہیں۔ اور ہم اخبار نویس، میڈیا ورکرز سب ان کے سہولت کار ہیں۔
ہم جنوبی ایشیا والے۔ ہم پاکستان والے سب بے حس ہو چکے ہیں۔ زر کی ہوس میں اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں۔ کچے مکان جو صدیوں سے ہمیں اپنی آغوش میں لے رہے ہیں۔ ہمارے ماہیوں، ٹپوں، ہماری اقدار، ہماری ثقافت کو پروان چڑھاتے آ رہے ہیں۔ ان کو ہم پکے بنگلوں میں بدلنے کیلئے کتنے بیٹوں کا خون ان کی بنیادوں میں رکھ چکے ہیں۔ یہ مٹی سے لپے ہوئے گھروندے بھی ہمارے لالچ پر خون کے آنسو بہاتے ہیں، کڑھتے ہیں۔ وہ زمینیں جو اناج پیدا کرتی ہیں، کروڑوں کی بھوک مٹاتی ہیں، وہ بھی ہمیں برہمی سے دیکھتی ہیں، ہمارے حکمرانوں کو کوستی ہیں، ہمارے ماہرین تعلیم کو للکارتی ہیں۔ ہماری مائوں کی مامتا کو پکارتی ہیں کہ سنہرے مستقبل کیلئے آپ اپنے سونے جیسے گھبرو جوان ان ناقابل اعتبار ایجنٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اپنے گھر اپنی زرخیز اراضی بیچ کر اپنے بیٹوں کو اجنبی سرزمینوں کو بھیجنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ زمینیں بھی یہی ایجنٹ یا ان کے سرپرست خرید رہے ہوتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں انتہائی قیمتی زمینوں والے علاقوں کے نوجوان یورپ کے خواب کیوں دیکھتے ہیں۔ پہلے یہی برطانوی، ولندیزی، فرانسیسی، پرتگالی ہمارے علاقوں میں سونے، ہیروں اور قیمتی دھاتوں کی کھوج میں آتے تھے۔ اب وہ جب سب کچھ لوٹ کر اپنے ملکوں کو خوشحال بنائے ہوئے ہیں۔ تو ہم اپنے نوجوانوں کو ان سامراجی، استعماری معاشروں میں بھیج رہے ہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیاں ان رجحانات کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں نہ ہی ہماری فوج ان کو روکتی ہے۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور حالات حاضرہ پر گفتگو کا دن۔ پھر نماز عصر کے بعد محلے والوں سے تبادلہ خیال۔ اتوار محض ایک چھٹی نہیں، یہ ملک کو مستحکم کرنے کا دن ہونا چاہئے، ہمارا گھر مستحکم تو ہمارا محلہ مستحکم، محلہ خود مختار تو شہر خود مختار، شہر خود پر انحصار کر رہا ہے تو صوبہ خود پر انحصار کرنے لگتا ہے، صوبے خود مختار تو مملکت خود مختار۔
یقین جانیے ہمارے گاؤں، قصبے، شہر ہمیں سنبھال سکتے ہیں۔ ہمیں یہیں اچھا روزگار مل سکتا ہے۔ ہم اپنے شہروں کی قدر و قیمت تو جانیں۔ یہاں امکانات کا جائزہ تو لیں، یہاں کے صرف کھیت کھلیان ہی نہیں یہاں کی خود رو جھاڑیوں میں بھی خزانے چھپے ہیں۔ ہمیں کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی چکا چوند میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ حسین و جمیل ماڈلز، جب گھیگوار اور پیاز کی عظمت بیان کرتی ہیں تو براہِ راست انکے استعمال کا مشورہ کیوں نہیں دیتیں، یہ کیمیکلز اور الابلا میں ڈھال کر ان جھاڑیوں کی افادیت کیوں بتاتی ہیں۔ اپنے شہروں میں ان معدنیات، نباتات، حیوانات سے ہم اپنا روزگار کیوں نہیں تراشتے۔ہم غریب ملک نہیں ہیں، تجزیہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں غربت ہے، تعلیم نہیں ہے، بے روزگاری ہے، بالکل غلط۔ جہاں سے یہ نوجوان سمندر میں ڈوبنے جاتے ہیں، وہاں زمینیں سونا اگلتی ہیں، وہاں بے شمار اسکول ہیں، کالج ہیں، یونیورسٹیاں ہیں، دینی مدارس ہیں، پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، برادریاں مقابلے پر اکساتی ہیں۔
دوسرے ملکوں میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر آپ اگر پڑھ لکھ کر کوئی ہنر سیکھ کر فرانس، ہالینڈ، برطانیہ، اٹلی، بلجیم، فن لینڈ، آئس لینڈ قانونی طریقے سے جائیں تو یہ ایسی بے سہارا کشتیوں سے سمندر نہیں نگلے گا۔ یہ ہمارے سفاک حکمران جو سرکاری خزانے لوٹتے ہیں، یہ جاگیردار، رؤسا، قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی کے ارکان بن کر اپنی مراعات بڑھاتے ہیں، ان نوجوانوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ووٹ لینے جاتے ہیں تو بہت وعدے کرتے ہیں۔ اگر یہ ان علاقوں کے امکانات کا جائزہ لے کر یہاں ہنر کی تربیت دیں۔ جناب ذوالفقار چیمہ جیسے درد مند پاکستانیوں سے کچھ سیکھ لیں۔ تربیت کی اہمیت وہ جانتے ہیں، یورپی ممالک، جاپان اور کئی ترقی یافتہ زمینیں، نوجوانوں سے محروم ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں کو اللہ تعالی نے 60 فی صد نوجوان دے رکھے ہیں۔ ہم ان نوجوانوں کو اپنی توانائی کسی منظم طریقے سے استعمال کرنے کی تربیت دے دیں تو وہ ان ملکوں کی ضروریات قانونی طریقوں سے پوری کر سکتے ہیں۔ کیا کوئی غور کرتا ہے کہ جب یہ نوجوان غیر قانونی طریقوں سے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ان ملکوں میں پہنچتے ہیں تو زیادہ جلدی امیر بننے کیلئے یہ وہاں بھی غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہوں گے۔
ان بد قسمت نوجوانوں کے والدین، ان علاقوں کے ارکان اسمبلی، علما، اساتذہ، غیر سرکاری انجمنیں، تھانیدار، ایس پی، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر سب ان ہلاکتوں میں اعانت کر رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے مقامی عہدیدار، یہاں بڑی کمپنیوں کے مالکان، زمیندار کبھی سوچتے ہیں کہ ان مائوں پر کیا گزرتی ہے، جن کے پرورش کردہ بیٹے کے ڈوبنے کی اچانک خبر آتی ہے۔ پھر وہ ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پاتیں، ایسی کتنی سوگوار مائیں ہیں اس علاقے میں، وہ اپنے معاشرے میں ایک عضو معطل بن کر رہ جاتی ہیں۔ ہمارے حکمران اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف تحقیقات کیلئے تو مقامی علاقوں میں جال پھیلا دیتے ہیں۔ متعلقہ ملکوں میں جا کر تفتیش کرنے میں کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں۔ اپنے نوجوانوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار مقامی ایجنٹوں، ایران، ترکی، یونان، لیبیا، اٹلی اور دوسرے ملکوں میں موجود سہولت کاروں کی شناخت کیلئے کیوں نہیں ٹیمیں بھیجی جاتیں۔ ایف آئی اے کے افسروں اور جوانوں کو اپوزیشن کی گرفتاریوں کیلئے مامور کیا جا سکتا ہے تو انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک کیوں ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ہماری وزارت خارجہ کو یہ قومی فریضہ خیال کرنا چاہئے کہ بحیرہ روم سے ملحقہ ملکوں میں ان سہولت کاروں کو تلاش کرے۔ وہاں کی مقامی جیلوں میں دیکھے کتنے پاکستانی وہاں غیر قانونی طریقے اختیار کرنے کی پاداش میں قید ہیں۔ یوٹیوبرز، بہت وڈیوز بنا رہے ہیں۔ وہ بھی ان خطرناک مسافتوں، ہمارے پیارے نوجوانوں کی المناک اموات پر ڈاکو منٹری بنائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ